لاہور کو آج کل سموگ کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے شہری مشکلات کا شکار ہیں۔ شہر میں نصب ایئر کوالٹی سینسروں کے ڈیٹا کے مطابق لاہور کی ہوا خطرناک حد تک آلودہ ہے۔ اس سے بچنے کے لیے جہاں مختلف طریقے اور احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں، وہیں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے ایک نئی تجویز پیش کی۔
ڈاکٹر عامر اقبال لندن کے نیشنل ہارٹ اینڈ لنگ انسٹی ٹیوٹ سے تربیت یافتہ ہیں اور ’ایسما ڈاکٹر‘ (Asthma Doctor) کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں، جس کا مقصد دمے اور سانس کے مرض سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
لاہور کو درپیش فضائی آلودگی کے مسئلے کے تناظر میں انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: ’کیا شادی کی تین روزہ تقریبات کی بجائے ایک دن کی تقریب کے انعقاد سے سموگ اور آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے؟‘
Can one day shadi events instead of three day ones help reduce smog and pollution?
— Aamer Iqbal (@DrAamer) November 10, 2019
اس ٹویٹ پر مختلف لوگوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آیا۔ کسی نے اس تجویز کی پُر زور انداز میں تائید کی تو کسی نے دیگر ’مشکلات‘ کا ذکر کرکے اسے الگ ہی رنگ دے دیا۔
سید شجیع گردیزی نامی صارف نے ڈاکٹر عامر کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس سے نہ صرف فیول انرجی کم استعمال ہوگی بلکہ کھانے اور تلف نہ ہونے والی اشیا میں بھی کمی آئے گی۔‘
Obviously sir. Reduced usage of fossil fuel energy, try tracing back all the chain of causation and eventually you’ll have your answer.
— Syed Shajee Gardezi (@shajeegardezi) November 10, 2019
Less transport for a day, less burning of energy: Decreased waste, either be it in the form of food or non-degradable products. There’s so much
سُنیر حسین ایک الگ ہی موقف کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے لکھا: ’اس سے واقعی اُن رشتے داروں کے طعنوں میں کمی آئے گی، جنہیں توجہ چاہیے ہوتی ہے۔‘
It will definitely decrease the number of taanay by rishteydar on not receiving the attention they were entitled to.
— Sunair Hassan (@MirSunair) November 10, 2019
دوسری جانب مشرف علی فاروقی نے ڈاکٹر عامر اقبال کی تجویز کو اپنے ہی انداز میں پیش کیا اور لکھا کہ اس سوال کو ’اگر ہم کچھ یوں کر دیں کہ کیا شادی میں شرکت نہ کرنے والے مہمانوں کو کھانا گھر پر ڈیلیور کرنے سے سموگ اور آلودگی میں کمی آئے گی؟‘
Let's rephrase this question: Can home delivery of wedding meals to guests who do not want to attend the ceremony help reduce smog and pollution?
— Musharraf Ali Farooqi (@microMAF) November 10, 2019
RT for *A MASSIVE YES!*
LIKE for a passive-aggressive *I SHOULD HAVE THOUGHT OF THIS IDEA!* https://t.co/vB8gFdP4NK
جس پر ’بے کس لاچاروی‘ کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک صاحب نے جواب دیا: ’سر کھانے ہی کی تو گیم ہے ساری۔ کھانا گھروں پر پہنچنے لگا تو دلہا دلہن بھی نہیں آئیں گے شادی میں۔‘
سر کھانے ہی کی تو گیم ہے ساری، کھانا گھروں پر پہنچنے لگا تو دلہا دلہن بھی نہیں آئیں گے شادی میں
— Bekas Lachaarvi (@Mirzamadak) November 10, 2019
دوسری جانب اعجاز حیدر نامی صارف نے لکھا: ’اگر کوئی شادی میں نہ آنا چاہے تو انہیں شکریہ کا ای- نوٹ کیوں نہ بھیج دیا جائے؟‘
bro, how about sending thank-you e-notes to those who don't want to attend the ceremony!?
— EH (@ejazhaider) November 10, 2019
ایک صارف حمیرا اشرف نے تجویز دی کہ اگر حکومت 20 سے زائد مہمانوں پر پابندی لگا دے تو سارا مسئلہ حل ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا: ’شادی میں دلہا دلہن کا ہونا کافی ہے۔ بہت ضروری ہو تو چار گواہ اور وہ بھی اگر دونوں کے ماں باپ، بہن بھائی ہیں تو وہی گواہ کا فریضہ انجام دے لیں۔ شادی میں بیس سے زائد مہمانوں پر حکومت پابندی لگا دے تو سارا مسئلہ حل ہو جائے۔‘
شادی میں دلھا دلھن کا ہونا کافی ہے، بہت ضروری ہو تو چار گواہ اور وہ بھی اگر دونوں کے ماں باپ بہن بھائی ہیں تو وہی گواہ کا فریضہ انجام دے لیں۔ شادی میں بیس سے زائد مہمانوں پر حکومت پابندی لگادے تو سارا مسئلہ حل ہو جائے۔
— حمیرا اشرف علی (@ashraf_humera) November 10, 2019