آسٹریلیا میں میلبرن کی ایک عدالت نے ایک شادی کو اس وقت کالعدم قرار دے دیا، جب دلہن نے گواہی دی کہ اسے لگا کہ یہ شادی ایک سوشل میڈیا سٹنٹ ہے تاکہ دلہا کی انسٹاگرام مقبولیت بڑھائی جا سکے۔
اکتوبر میں جاری کیے گئے فیصلے کے مطابق خاندانی معاملات کی عدالت نے دسمبر 2023 میں ہونے والی اس شادی کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دیا کہ ’دلہن کو لگا کہ وہ کسی سوشل میڈیا پرینک میں حصہ لے رہی تھیں‘ نہ کہ قانونی طور پر باندھنے والی کسی شادی میں۔‘ یہ جوڑا شادی سے تین ماہ قبل ایک دوسرے سے ملا تھا۔
دلہن نے عدالت میں گواہی دی کہ تین ماہ تک رابطے میں رہنے کے بعد، دلہا نے انہیں دسمبر 2023 میں سڈنی میں ہونے والی ایک ’وائٹ پارٹی‘ میں مدعو کیا۔ جب وہ وہاں پہنچیں تو حیران ہوئیں کہ دلہا نے ’شادی کا اہتمام کر رکھا تھا۔‘
جب انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو دلہا نے کہا کہ یہ ’ایک سادہ سا پرینک‘ ہے۔ خاتون نے عدالت کو بتایا: ’جب میں وہاں پہنچی اور کسی کو سفید لباس میں نہیں دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ’یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے لیے شادی کے پرینک کا اہتمام کیا ہے۔ مختصر یہ کہ انسٹاگرام کے لیے، کیوں کہ وہ اپنے مواد کو مقبول بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے انسٹاگرام پیج سے پیسے کمائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلہا، جن کے انسٹاگرام پر 17 ہزار فالوورز تھے، نے ان دعوؤں کی تردید کی۔
ویڈیو فوٹیج میں جوڑے کو تقریب کے دوران ایک دوسرے سے وعدے کرتے اور انگوٹھیاں بدلتے ہوئے دکھایا گیا۔
دلہن نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ’ایسا ظاہر کرنے کے لیے اداکاری کرنا پڑی کہ سب کچھ حقیقت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب ایک ڈراما تھا۔‘
دلہن کو ’جعلی‘ شادی کے قانونی ہونے کا علم تب ہوا جب دلہا نے ان سے درخواست کی کہ انہیں خاتون کی آسٹریلیا میں مستقل رہائش کی درخواست میں شامل کیا جائے۔ دلہا نے اعتراف کیا کہ وہ مستقل رہائشی نہیں اور انہوں نے ’اپنی مدد کے لیے اس شادی کا اہتمام کیا۔‘
دلہا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ایک نجی تقریب تھی اور باضابطہ شادی بعد میں ہونی تھی لیکن عدالت نے خامیوں کی وجہ سے ان کے دلائل مسترد کرتے ہوئے دلہن کے حق میں فیصلہ سنایا۔
جج نے دلہا کے دعوؤں کو ’تفصیل سے اتنا عاری قرار دیا کہ وہ تقریباً لا یعنی ہو گئے۔‘
جج نے یہ بھی کہا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے‘ کہ دلہن شادی کی کسی ایسی تقریب میں شرکت کرے، جس میں ان کا کوئی دوست یا خاندان کا رکن موجود نہ ہو۔
جج کا کہنا تھا کہ ’وہ مذہبی خیالات کی مالک تھیں، اس لیے یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کسی گرجا گھر میں شادی کی بجائے صرف عام شادی میں حصہ لیں۔ میری سمجھ نہیں آتا کہ وہ ایسا کریں گی۔‘
© The Independent