پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ان دنوں سموک کا راج ہے جسے سموگ سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ محکمہ موسمیات حکام کے مطابق فضا میں پھیلا دھواں ہوا کا دباؤ کم ہونے کی وجہ سے ٹھہرا ہوا ہے جس میں سانس لینے سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر حکومت پنجاب نے آج جمعرات کے روز سرکاری ونجی سکول بند رکھنے کا اعلان کیا تاکہ بچوں کی صحت کو دھویں کے نقصان سے بچایا جا سکے۔
بارش سے فضا میں دھویں کی مقدار وقتی طور پہ کم ہوئی ہے جو ہوا نہ چلنے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ شہریوں کو گھروں سے بلاوجہ نہ نکلنے اور کھلی فضا میں ماسک پہننے کا ہدایت کی گئی ہے۔
سموگ اور سموک میں فرق کیا ہے؟
محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ صاحب زاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں ان دنوں فضا کو دھندلانے والی سموگ نہیں بلکہ دھواں موجود ہے جس کے سموگ سے کم نقصانات ہیں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ سموک اور سموگ میں کیا فرق ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’فضا میں پارٹیکیولیٹ میٹر (پی ایم ) کی مقدار2.5 ہونے کا مطلب سموگ ہوتا ہے اس صورت میں انتہائی خووردینی ذرات فضا میں معلق رہ جاتے ہیں اور ہوا کا دباو کم ہونے پر فضا میں ٹھہر جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نظر نہ آنے والے ان ذرات کا انسانی جسم میں داخل ہونا خطرناک ہوتا ہے اس صورت میں دھندلاہٹ زمین سے فضا تک پھیلی ہوتی ہے۔ جب کہ سموک یعنی دھویں سے دھندلاہٹ زمین کی سطح سے چند فٹ اوپر سے شروع ہوتی ہے کیوں کہ دھواں ہلکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دنوں لاہور کی فضا کو دھندلا کرنے والا دھواں ویسے تو موجود ہی رہتا ہے کیوں کہ گاڑیوں فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور درختوں کی شدید کمی سے فضا آلودہ ہی رہتی ہے لیکن ان دنوں اس میں چاول کی فصل کی باقیات جلانے کے باعث اضافہ ہوجاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’سموک اور سموگ دونوں ہی انسانوں کے لیے خطرناک ہیں۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب لاہور میں بارش کے باعث ہوا کا دباؤ کم ہوا اور سموک عارضی طور کم ہوگیا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ کیوں کہ ہوا کا دباؤ کم ہونے پر اردگرد کی ہوا اس علاقہ میں داخل ہوتی ہے۔‘
جنوب مشرقی ہوائیں انڈین بارڈر سے داخل ہو رہی ہیں جن سے دوبارہ دھندلاہٹ میں اضافے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک درختوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اور فیکٹریاں بند نہیں ہوتیں اور فصلوں کی باقیات جلانے پر قابو نہیں پایا جاتا صورتحال ایسی ہی رہے گی۔
ایئر کوالٹی انڈیکس میں اتار چڑھاؤ:
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن نے بھی محکمہ موسمیات کے سربراہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں فضائی دھندلاہٹ سموگ نہیں بلکہ سموک ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فضا میں دھویں کے باعث گذشتہ روز ایئر کوالٹی انڈیکس 262 جب کہ رات کے وقت بڑھ کر 323 تک چلا گیا تھا لیکن رات گئے بارش کے باعث آج ریکارڈ کیا گیا ہوا کی کوالٹی کا انڈیکس کم ہوکر 176 ہو گیا ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں کے لیےکس حد تک ایئر کوالٹی انڈیکس انتہائی خطرناک ہوتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’300 تک انسانوں کے لیے قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اس سے اوپر چلاجائے تو انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے جس سے پھیھڑوں کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔‘
کیا وزیر اعلی عثمان بزدار اور صوبائی وزیر تعلیم کو سموک اور سموگ میں فرق نہیں بتایا گیا؟
ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وزیر اعلی عثمان بزدار اور صوبائی وزیر تعلیم کو سموک اور سموگ میں فرق نہیں بتایا گیا کیوں کہ انہوں نے سکولوں کی بندش سے متعلق اپنے ٹویٹس میں ’سموگ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے؟
ان میڈیم ٹرم اقدامات کے ساتھ ہم لاہور اور گردونواح میں #Smog کو کنٹرول میں رکھنے کےلیے zigzag ٹیکنالوجی پر شفٹ نا ہونےوالے بھٹوں کو 15نومبر سے بند کر رہےہیں، ٹائر جلانےوالی فیکٹریاں سیل کر رہےہیں اور کھیتوں میں فصلیں جلانے والوں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پربھی جرمانےکر رہےہیں
— Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) November 5, 2019
انہوں نے کہا کہ ’اس بارے میں وہ صرف اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ عام اصطلاح سموگ ہی چل رہی ہے اور میڈیا پر بھی سموگ کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ اس لیے شاید انہوں نے بھی اس بات کا خیال نہیں کیا۔ تاہم ہماری آج جمعرات کو ان سے اجلاس میں ملاقات ہوگی تو ضرور ان کے علم میں لائیں گے کہ یہ دھواں ہے سموگ نہیں۔‘ واضح رہے سابقہ اور موجودہ حکومت گذشتہ کئی سال سے ماہ نومبر میں شروع ہونے والے اس دھندلے موسم کو حکومتی سطح پر چیلنج کے طور پر لینے کا دعوی کیا جاتاہے لیکن موثر اور ٹھوس حکمت عملی فضا سےدھندلا پن ختم ہوتے ہی دھندلا جاتی ہے۔