’ذہنی صحت اہم ہے‘: 90 گھنٹے کام کرنے کے بیان پر دیپیکا کی تنقید

انڈین کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو کے چیئرمین نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ وہ اتوار کے روز کام کرنا لازمی قرار نہیں دے سکتے، ان کے اس بیان پر دیپیکا پاڈوکون سمیت دیگر سوشل میڈیا صارفین نے غصے کا اظہار کیا ہے۔

10 دسمبر، 2019 کو بالی ووڈ اداکارہ دیپیکا پاڈوکون ممبئی میں اپنی فلم کے ٹریلر لانچ میں شریک (اے ایف پی)

ایک بین الاقوامی انڈین کمپنی کے چیئرمین کی جانب سے کمپنی کی میٹنگ کے دوران ہفتے میں 90 گھنٹے کام کی حمایت کے بعد بالی ووڈ کی اداکارہ دیپیکا پاڈوکون نے  کام اور زندگی کے توازن کی اہمیت پر زور دیا۔

لارسن اینڈ ٹوبرو (L&T) کے چیئرمین ایس این سبراہمینین کی باتیں، جو ایک دفتری میٹنگ کے دوران کی گئی تھیں، جمعرات کو اس وقت صارفین کے لیے غصے کا باعث بن گئیں جب ریڈٹ پر ان کی تقریر کا ایک کلپ سامنے آیا، جس پر کوئی تاریخ درج نہیں تھی۔

ویڈیو میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اتوار کے روز کام کرنا لازمی قرار نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر میں اتوار کو آپ سے کام کروا سکوں تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔ آپ گھر بیٹھ کر کیا کرتے ہیں؟ کتنی دیر اپنی بیوی کو دیکھ سکتے ہیں یا بیوی کتنی دیر اپنے شوہر کو دیکھ سکتی ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہفتے میں 90 گھنٹے کام  کرنا ضروری ہے تاکہ ’دنیا میں سب سے اوپر رہ سکیں۔‘

پاڈوکون، جو ذہنی صحت کے مسائل پر کام کرنے کی حامی ہیں، نے ان تبصروں پر سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا: ’یہ حیران کن ہے کہ اتنی اعلیٰ سطح پر کام کرنے والے افراد ایسے بیانات دیتے ہیں۔‘

انہوں نے  #MentalHealthMatters ہیش ٹیگ بھی لگایا۔

اگرچہ اس بیان پر بہت زیادہ تنقید کی گئی، اور کئی افراد نے نشاندہی کی کہ اس میں ملازمین کی ذاتی زندگیوں کو نظر انداز کیا گیا، ایک ایل اینڈ ٹی کے ترجمان نے سبراہمینین کے بیانات کو کمپنی کی ’قوم کی ترقی‘ کے عزم کا عکاس قرار دیا۔

ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے آٹھ دہائیوں سے زیادہ عرصے میں انڈیا کے بنیادی ڈھانچے، صنعتوں اور تکنیکی صلاحیتوں کی تشکیل کی ہے۔

’ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ انڈیا کی دہائی ہے، ایک ایسا وقت جو اجتماعی محنت اور کوشش کا متقاضی ہے تاکہ ترقی کی راہ میں آگے بڑھا جائے اور ایک ترقی یافتہ قوم بننے کے ہمارے مشترکہ وژن کو حقیقت بنایا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’چیئرمین کی باتیں اس عظیم خواہش کی عکاسی ہیں اور اس بات پر زور دیتی ہیں کہ غیرمعمولی نتائج کے لیے غیرمعمولی محنت ضروری ہے۔ ایل اینڈ ٹی میں ہم اس ثقافت کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں جس میں جذبہ، مقصد اور کارکردگی ہمیں آگے لے جاتے ہیں۔‘

کئی سوشل میڈیا صارفین بشمول صحافی ندھی رازدان نے سبراہمینین کی باتوں کو ’شرم ناک‘ قرار دیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا  کہ ’کیا ایل اینڈ ٹی میں خواتین ملازمین نہیں ہیں؟ یہ تبصرے بیوی یا پارٹنر کی بےتوقیری کا بھی اظہار کرتے ہیں‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا: ’جو محنتی لوگ آپ کی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، ان کے پاس گھر کے کاموں جیسے کپڑے دھونا، گاڑیاں صاف کرنا، بچوں کو فلم دکھانے لے جانے، یا صرف الماری صاف کرنے یا بال کٹوانے کے لیے سات سے آٹھ ملازم نہیں ہوتے۔

’اپنے نوجوان ملازمین کو فیملی لائف سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیں۔ انہیں اتوار کے دن کام کرنے یا چھٹی گزارنے کا آپشن دیں۔ فیملی لائف اور فارغ وقت اتنے ہی اہم ہیں جتنے کام اور پیسہ۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’آپ کو آخری بار کب آپ کے عزیز کا فون آیا تھا کہ ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور کھانا تیار ہے؟ مجھے روزانہ یہ کال آتی ہے، اور میں خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت بیٹی سمجھتی ہوں۔‘

پاڈوکون کی پوسٹ نے انڈیا میں کام اور زندگی کے توازن کے بارے میں بحث میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، جو پچھلے سال انفوسس کے شریک بانی اور سابق برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے سسر نارائنا مورتی کے ایک متنازعہ بیان کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئی تھی۔

 مورتی نے ملازمین کے لیے 70 گھنٹے کام کے ہفتے کی تجویز دی تھی اور کام اور زندگی کے توازن کے تصور کو جھٹلایا تھا۔

اسی طرح کی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے اوبر کی ٹیکسی سروس کے CEO بھاویش اگروال نے بھی طویل کام کے اوقات کی حمایت کی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

تاہم، ان کے تبصروں پر بھی تنقید ہوئی، ناقدین کا کہنا تھا کہ ایسی توقعات ملازمین کی فلاح و بہبود کو نظرانداز کرتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کاروباری مالکان کی مالی مراعات سے محروم ہیں۔

نمیتا تھاپر، جو ایک انڈین بزنس ریالٹی ٹیلی ویژن سیریز کی جج ہیں، نے پہلے ان خیالات کے خلاف موقف اپنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ کاروباری رہنماؤں کے لیے غیرمعقول ہے کہ وہ اپنے کام کے سخت شیڈول کو ملازمین پر لاگو کریں۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’جب آپ اپنی کمپنی بنا رہے ہوتے ہیں تو اضافی گھنٹے کام کرنا قدرتی ہے، لیکن ملازمین سے بھی یہی توقع رکھنا غیرمنصفانہ ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل