افغان صدر اشرف غنی نے ایک پریس کانفرنس میں حقانی نیٹ ورک کے تین رہنماؤں کی مشروط رہائی کا اعلان کیا ہے۔
جبکہ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان رہنماؤں میں انس حقانی، حاجی مالی خان اور حافظ راشد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان تینوں کو 2014 میں افغانستان کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی نے منگل کی دوپہر براہ راست پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعلان کیا کہ حقانی نیٹ ورک کے تین رہنماؤں کو 2016 میں ایک امریکی اور ایک آسٹریلین پروفیسر کی بازیابی کے بدلے رہا کیا جا رہا ہے۔
اشرف غنی نے کہا کہ ’ان تینوں قیدیوں کی رہائی ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن افغان عوام کی بہتری کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان قیدیوں کو کب اور کہاں رہا کیا گیا ہے۔
کیون کنگ نامی امریکی پروفیسر اور ٹموتھی ویکس نامی آسٹریلین شہریوں کو طالبان نے کابل میں امیریکن یونیورسٹی کے باہر سے اغوا کیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم نے امریکی دورے کے موقعے پر صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کہا تھا کہ وہ امریکی پروفیسروں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور یہ کہ آپ اس بارے میں جلد ہی اچھی خبر سنیں گے۔
انس حقانی کون ہیں؟
انس حقانی طالبان کی سینئیر قیادت میں شامل ہیں اور حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سابق سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق انس حقانی کو 2014 میں بحرین سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں بگرام جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ انہیں 2016 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ انس حقانی ایک طالب علم تھے اور ان کا عسکریت پسندی کی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغان طالبان کی جانب سے ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا لیکن کابل کی سڑکوں پر مظاہرے ہو چکے ہیں جن میں لوگوں نے انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
رہا ہونے والے دوسرے فرد مالی خان زادران سراج الدین حقانی کے چچا اور حافظ رشید ملا نبی عمری کے بھائی ہیں۔
I think the main purpose of his visit of KBL is, finalizing the deal on prisoners exchange, which may happen soon. #AnasHaqani brother of Serejuddin Haqani, Mali Khan Zadran uncle of Serajuddin Haqani, & Hafiz Rashid brother of Mullah Nabi Omari with the two AUoA 's Professors. https://t.co/xTbp5I7S8P
— Rahmatullah Nabil (@RahmatullahN) November 11, 2019
افعانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سابق ڈائریکٹر اور صدارتی امیدوار رحمت اللہ نبی نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’میرے خیال میں ان کے دورہ کابل کا بنیادی مقصد قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ڈیل کو حتمی شکل دینا ہے، جو کہ جلد ہو سکتا ہے۔ سراج الدین کے بھائی انس حقانی، سراج الدین کے چچا مالی خان زادران اور ملا نبی عمری کے بھائی حافظ راشد کا دو اے یو او اے کے پروفیسر کے ساتھ تبادلہ۔‘
آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورۂ افغانستان
اس سے قبل گذشتہ روز پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل نے افغانستان کا دورہ کیا۔ افغان میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں سفارتی ذرائع نے کہا ہے کہ اس ملاقات میں پاکستانی سفارتی عملے کو کابل میں ہراساں کرنے کا معاملہ زیرِ غور آیا اور طے پایا کہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی بنائی جائے گی اور دونوں ملکوں کے بیچ رابطوں میں بہتری لائی جائے گی۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی ہے اور فائرنگ کے واقعات میں متعدد افراد مارے گئے ہیں جب کہ سفارتی سطح پر بھی تناؤ کا ماحول ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان کی قومی سلامتی کے ترجمان کبیر حقمال نے کہا کہ دونوں ملک تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان کی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے پاکستانی آئی ایس کے سربراہ جنرل فیض حمید سے ملاقات میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پر غور کیا۔ ملاقات میں پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سہیل محمود بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملاقات میں اس بات کا بھی فیصلہ ہوا کہ افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام کا دسمبر میں اجلاس منعقد کروایا جائے جن میں اس معاملے پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے۔
اس سے قبل افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے نے عرب نیوز کو بتایا تھا کہ افغانستان کے انٹیلی جنس اہلکار کابل کی سڑکوں پر پاکستانی سفارتی عملے کے ارکان کو ہراساں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سفارت خانے کی عمارت تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ کابل میں واقع قونصل خانے کو بند بھی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ویزا سروس معطل ہو جائے گی۔
اس ماہ کی تین تاریخ کو پاکستان نے اسلام آباد میں افغانستان کے ناظم الامور کو دفترِ خارجہ میں طلب کر کے ان سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی تھی۔
اس کے جواب میں افغانستان نے کہا تھا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس کے ناظم الامور کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’افغانستان کو پاکستانی آئی ایس آئی کی جانب سے اپنے سفیر کو طلب کیے جانے اور ان سے بدسلوکی کے واقعے پر شدید اعتراض ہے۔‘