’چین میں مسلم حراستی کیمپ معلوم تعداد سے بہت زیادہ‘

اویغور مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے چین میں 500 کے قریب مسلم حراستی کیمپوں کی موجودگی کے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق چین میں 10 لاکھ سے زائد اویغور اور دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ترکوں کو زیر حراست رکھا جا رہا ہے(اے ایف پی)

اویغور مسلمانوں کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے چین میں 500 کے قریب حراستی کیمپوں کی موجودگی کے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔

ان رضاکاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چینی حکومت ان کیمپوں میں رکھے جانے والے دس لاکھ  مسلمانوں کی معلوم تعداد سے زیادہ کو کیمپوں میں رکھ رہی ہے۔

واشنگٹن میں متحرک ایسٹ ترکستان نیشنل اویکننگ موومنٹ مسلم اکثریتی سنکیانگ کو چین سے آزاد کرانا چاہتی ہے۔

تنظیم نے 182 ایسے مقامات کی جغرافیائی نشاندہی کی ہے جنہیں ممکنہ ’حراستی کیمپ ‘ کہا جا رہا ہے۔

حراستی کیمپوں میں موجود اویغور مسلمانوں کو اپنی ثقافت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گوگل ارتھ کی تصاویر پر تحقیق کرنے کے بعد اس تنظیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے 209 ممکنہ قید خانوں اور 74 جبری مزدوری کے کیمپوں کی نشاندہی کی، جن کی تفصیلات بعد میں دی جائیں گی۔

تنظیم کے ڈائریکٹر آپریشنز کیل اولبرٹ کا کہنا ہے ’اس سے پہلے ان میں سے زیادہ تر کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔ ہو سکتا ہے ہم اس سے بھی زیادہ تعداد کی بات کر رہے ہوں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ایسے اور مقامات بھی ہو سکتے ہیں جن کی ہم ابھی تک نشاندہی نہین کر سکے۔‘ وہ واشنگٹن کے نواح میں صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔

امریکی انٹیلی جنس کے سابقہ اہلکار اور اس تنظیم کے مشیر آندرس کور کا کہنا ہے ان میں سے 40 فیصد مقامات کی اس سے پہلے نشاندہی نہیں کی جا سکی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کے ایک اندازے کے مطابق چین میں 10 لاکھ سے زائد اویغور اور دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو زیر حراست رکھا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایشیا کے لیے پینٹاگون کے اعلیٰ عہدے دار رینڈل شریور نے اس حوالے سے مئی میں بیان دیا تھا کہ یہ اعداد و شمار ’30 لاکھ شہریوں تک ہو سکتے ہیں‘ جو کہ دو کروڑ آبادی والے علاقے کے لیے ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

کیل اولبرٹ کے مطابق ممکنہ کیمپوں کی پرانی تصاویر ایک حکمت عملی پر مبنی محسوس ہوتی ہیں۔ گذشتہ چار سال کے دوران حفاظتی اقدامات کے ساتھ سٹیل اور کنکریٹ کی بڑی تعمیرات تعمیر کی گئیں ہیں۔

رضاکاروں کے مطابق ان کی تنظیم نے ایسی تمام تعمیرات کے بارے میں تصدیق کی کوشش کی لیکن وہاں موجود افراد نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ دستیاب معلومات کے ذرائع کو محفوظ رکھنا ہے۔

یہ ایک مینڈک کو ابالنے جیسا ہے

اس حوالے سے کام کرنے والے رضاکاروں اور گواہوں کا کہنا ہے کہ چین اویغور مسلمانوں کو زبردستی ہان اکثریت میں شامل کرنا چاہتا ہے اور ایسا کرنے کے دوران ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ نماز کی پابندی اور شراب اور خنزیر سے دور رہنے جیسے اسلامی عقائد پر عمل نہ کریں۔

اولبرٹ اسے چین کی ’قید میں رکھ کر نسل کشی‘ کی حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ اویغور مسلمان غیر معینہ مدت کے لیے قید رکھے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’یہ ایک مینڈک کو ابالنے جیسا ہے، اگر وہ دن میں دس ہزار افراد کو قتل کر دیں تبھی دنیا اس مسئلے کی جانب توجہ دے گی لیکن اگر وہ لوگوں کو قید رکھ کر انہیں مرنے دیں تو دنیا توجہ نہیں دے گی۔ میرا خیال ہے چین اسی پر عمل کر رہا ہے۔‘

چین پہلے ان کیمپوں کی موجودگی کی تردید کے بعد اپنی اس پالیسی کا دفاع کر چکا ہے۔

چین کا کہنا ہے مسلمانوں کو شدت پسندی سے دور رکھنے کے لیے ان لوگوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ سنکیانگ کے دارلحکومت آرمچی میں 2009 میں ہونے والے فسادات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں ہان نسل کے چینیوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا تھا۔

امریکہ اویغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے چینی سلوک کو نازی جرمنوں کے حراستی کیمپوں سے تشبیہ دے چکا ہے۔

تاہم مغربی ممالک کے علاوہ چین کو اس بارے میں کم ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گذشتہ ماہ اقوام متحدہ میں مخلتف ممالک نے چین میں ’انسانی حقوق کے حوالے سے قابل قدر کامیابیاں حاصل کرنے پر ‘چین کی حمایت میں بیان جاری کیے تھے۔

ان ممالک میں روس، پاکستان اور مصر شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک اس معاملے میں اپنے ریکارڈ کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

اویغور حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے انہوں نے لمبے عرصے کے دوران سنکیانگ میں قبرستانوں کو تباہ کرنے پر بھی اعدادوشمار جمع کیے، جس کی نشاندہی گذشتہ ماہ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے کی تھی۔

ایسٹ ترکستان نیشنل اویکننگ موومنٹ کا کہنا ہے انہوں نے معلومات میں بہتری کے لیے امریکی محکمہ خارجہ سے اس بارے میں سیٹلائٹ معلومات دینے کی درخواست دی تھی لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔

سنکیانگ میں اس صورت حال کے حوالے سے امریکی قانون ساز بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔

نمائندے جم میگروون اور سینیٹر مارکو روبیو، جو چین کے حوالے سے کانگریس کے ایگزیکٹیو کمیشن کی سربراہی کرتے ہیں، دونوں ایک حالیہ خط میں امریکی حکام پر زور دے چکے ہیں کہ وہ چین میں جبری مشقت کے ذریعے بنائی گئی مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے ’جارحانہ اقدامات‘ اٹھائیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا