چند روز پہلے جب ایک انڈین چینل پر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ایس پی سنہا نے ایک مباحثے کے دوران بڑے فخریہ انداز میں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے مبینہ عصمت دری کو جائز قرار دیا اور مدعو حاضرین میں بیٹھی خواتین سے اس کی تصدیق کروائی تو گھروں میں بیٹھے بیشتر بھارتی فوجی افسر تلملا گئے اور خود سے یہ سوال کرنے لگے کہ سنہا نے آخر وہ بات کہہ ہی ڈالی جو ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ یا اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ گذشتہ کئی دہائیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے۔
بھارت حکومت اس پر پردہ ڈالنے کی ہر مرتبہ کوشش کرتی رہی۔ کبھی تجارتی سودے کرکے تو کبھی ملک کی ایک ارب آبادی کی مارکیٹ کا چسکا دے کر، لیکن سچ آخرکار بول پڑا اور وہ بھی فوجی افسر کی زبانی جس نے بظاہر کشمیر میں تعینات دس لاکھ بھارتی فوج کی ذہنی سوچ کی ترجمانی کی۔
ہوسکتا ہے کہ عالمی ایوانوں کے لیے یہ بڑا انکشاف ہو، بلکہ اعتراف بھی مگر کشمیری اس سے واقف ہیں اور اس کو خاموشی سے سہہ رہے ہیں۔
ایک کروڑ سے زائد کشمیری عوام کو جنرل سنہا کی ذہنی سوچ کا گہرا تجربہ ہے۔ چاہے کوئی بھارتی فوج کی مبینہ زیادتیوں پر سوال اٹھائے یا نہ اٹھائے ، انسانی حقوق کی پامالیوں کی تائید کرے یا نہ کرے۔
جن فوجی افسران کو جنرل سنہا کی بات بری لگی ہے انہیں مشورہ ہے کہ کشمیر کی تین دہائیوں کی تاریخ میں رقم انسانی حقوق کی پامالیوں کے سینکڑوں معاملات میں سے محض چند پر نظر ڈالیں اور کشمیری قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ دیں کہ یہ سارے واقعات جھوٹے ہیں اور وہ ان کی عالمی انصاف کے ادارے سے تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہیں تاکہ جھوٹا ثابت ہونے کی صورت میں بھارتی فوج کی شبیہ بحال ہوسکے ۔
آپ ننھی سی جان حبہ سے معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی اُس روز سے کیسے گزار رہی ہیں جس روز سے ان کی آنکھوں میں پیلٹ گھسا دیے گئے ہیں۔ حبہ کی پیلٹ سے متاثرہ آنکھیں تصدیق کے لیے کافی ہیں۔
آپ کنن پوشپورہ کی سو سے زائد اُن عورتوں سے پوچھ لیجیے جن کے مردوں کو 1992 میں ایک کریک ڈاؤن کے دوران گھروں سے باہر نکال کر زدوکوب کیا گیا اور 12 برس سے لے کر 80 برس تک کی عمر کی ایک سو سے زائد عورتوں کی عصمت کو رات کے اندھیرے میں تار تار کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر عورتیں زندہ لاشوں کی طرح گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر آج بھی انصاف ملنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ پولیس کی ایف آئی آر رپورٹ تھانے میں درج ہے اور معاملہ سپریم کورٹ کی فائل میں بند پڑا ہے۔
شوپیاں کی نیلوفر جان اور آسیہ جان کے لواحقین سے پوچھیے جن کو 2009 میں رات کے اندھیرے میں ہوس کا نشانہ بناکر ُن کی لاشوں کو سڑنے کے لیے دریا کے کنارے پھینکا گیا تھا۔ اس گھناؤنے جرم سے کشمیر تھم گیا تھا۔ حکومت یا بھارتی سکیورٹی فورسز نے ان ہلاکتوں پر ہر ممکن پردہ ڈالنے کا حربہ اپنایا اور ایسے جرائم کو حسب روایت افسپا کے قانون کے بوجھ تلے دبایا گیا۔
کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت، کشمیری عورتوں کا ریپ، معصوم بچوں کی حراست یا شیرخواروں کو پیلٹ مارنے کا سارا عمل افسپا یا پی ایس اے جیسے قوانین کے سائے میں دب جاتے ہیں تاکہ فوجی، پولیس یا سکیورٹی فورسز کے جوان آسانی سے ان گھناؤنے جرائم سے محفوظ ر ہ سکیں۔
کشمیر کے سینکڑوں ریپ کیسز کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، جو پولیس میں درج ہیں یا عدالتوں میں فائلوں کے نیچے دبائے گئے ہیں۔ سنہا کے اعتراف سے دنیا کو معلوم ہوا ہوگا کہ کشمیریوں کو بھارتی فوجی سے خوف کیوں آتا ہے اور وہ سات دہائیوں سے اس خوف کے سائے میں کیسے جی رہے ہیں۔
گو کہ بیشتر دوسرے فوجی جنرل سنہا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور فوج کی مسخ شدہ شبیہ کو بحال کرنے کے جتن کرنے لگے ہیں لیکن کاش یہ شبیہ بحال کرنے والے اُس کشمیری والد سے پوچھتے جو 20 برسوں سے اپنی بیٹی کو تلاش کر رہا ہے، جن کو چند برس پہلے فوجی کیمپ کے سامنے دیکھا گیا تھا یا شوپیاں کی سکینہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) سے پوچھتے، جس کو مخبر بنا کر پہلے خود لوٹا پھر نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے خطرناک مشن پر بھیجا یا اُس والدہ سے پوچھتے، جو رات کو دروازے پر بیٹھ کر اُن معصوم بچیوں کی پہرے داری کرتی ہے جن کا والد 15 برس سے لاپتہ کردیا گیا ہے یا پھر پروینہ آہنگر کو ایک بار بیٹے کا پتہ بتاتے جس کو فوجی گرفتار کرکےلے گئے اور اب تک ماں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔
رہی بات کشمیری پنڈتوں کی جن میں سے اکثر ساری دنیا میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ انہیں مسلمانوں نے اپنے گھروں سے بے دخل کردیا یا ان کی عورتوں سے جنسی زیادتی کی، کشمیری اس الزام کو رد کر چکے ہیں۔گھر سے بے دخل کرنے کا جواب انہیں صرف اور صرف جگ موہن سے پوچھنا چاہیے۔
کشمیریوں کی اکثریت نے پنڈتوں کے جانے پر ہمیشہ افسوس اور واویلا کیا اور بھارت کے مختلف علاقوں میں جاکر انہیں واپس لانے کی کوشش کی۔ جن پنڈتوں کو شورش کے دوران ہلاک کیا گیا، اُس پر ہر مسلمان نادم ہے۔ جہاں تک ریپ کا سوال ہے، کشمیری مسلمان یہ گھناؤنی حرکت کبھی نہیں کرسکتے۔
1990 میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کشمیری پنڈت وادی سے ہجرت کرکے جموں، دلی اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں چلے گئے جبکہ حکومت کے مطابق اس وقت صرف 62 خاندان ایسے ہیں جنہیں کشمیری مہاجرین کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ دس ہزار سے زائد پنڈت اب بھی کشمیر میں آباد ہیں۔
کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے سروے کے مطابق 1990 سے 2011 تک 399 پنڈت ہلاک کیے گئے ہیں۔ جنسی عصمت دری کا کوئی معاملہ درج نہیں ہے۔ ان تین دہائیوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ہے، دس ہزار سے زائد نوجوان پیلٹ لگنے سے آنکھوں کی بینائی سے محروم کردیے گئے ہیں، سینکڑوں خواتین کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا ہے، 11 ہزار افراد کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا جاچکا ہے، ہزاروں املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور پوری آبادی کو دہشت کے ماحول میں رکھ کر فوجی نرغے میں رکھا گیا ہے۔
جنرل سنہا نے پنڈتوں کی ہلاکت کا بدلہ اگر پوری مسلمان آبادی سے لینے کی صلاح دی ہے تو بھارت کا پانچ اگست کا فیصلہ اس کا اختتام ہے، جس کی شروعات حکومت نے 1990 میں کی جب وادی کے عوام نے اپنے حقوق کے حصول کی خاطر مسلح تحریک کا آغاز کیا تھا۔