مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت،صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ، کرپشن کے الزامات، مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت نے بھٹو سیاست اور پیپلز پارٹی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ خاندان کی تقسیم، سیاست کی تقسیم، سازشوں کے انبار۔۔۔
مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ اور ساتھیوں کا بی بی کے شوہر زرداری پر قتل کی سازش کا براہ راست الزام۔۔۔
مجھے یاد ہے جب زرداری کو گرفتار کرکے کراچی کی جیل منتقل کیا گیا، بی بی کی برطرفی کے بعد زرداری سے پہلی ملاقات۔۔۔ میں بی بی کے ساتھ تھا۔ سلاخوں کے پیچھے زرداری اور بی بی میں جذباتی کلمات کا تبادلہ۔۔۔
بے نظیر کا فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مخصوص انداز میں سیاسی بیان۔۔۔ کس طرح ایک بھٹو کو قتل کرکے دوسرے بھٹو کو قتل کرنے کی سازش۔ اور ان کے بھائی کی طرح لغاری کے خلاف غداری کے الزامات بھرا بیان۔۔
لیکن زرداری کے بارے میں الفاظ مجھے یاد ہیں: ’دیکھو بے چارہ میرا شوہر۔۔۔ سازش میرے خلاف اور جیل ہمیشہ یہ بھگتتا ہے۔۔۔ یا تو پرائم منسٹر ہاؤس یا پھر جیل میں۔‘ بی بی کے پہلے دورِ حکومت کے خاتمے پر بھی زرداری کو جیل بھگتنا پڑی تھی۔
زرداری کے کردار کو جانچنے کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں۔ ایک کھلنڈرا نوجوان۔۔۔ غیر معروف سیاسی خاندان سے تعلق۔۔۔ ضیا دور میں باپ حاکم زرداری کا انتخابات میں حصہ لینا۔۔۔ بھٹو سیاست کے خلاف، پھر زرداری کی قسمت کا قرعہ فال نکلا۔۔۔
بی بی سے شادی۔۔۔ لیاری میں تقریب۔۔۔ بھٹو کے چاہنے والوں کا ہجوم، میں بھی کالج کے دوستوں کے ساتھ شریک۔۔۔ بھٹو کی بیٹی جسے وہ پری سمجھتے تھے دیکھنے کے لیے بے قرار، ساتھ میں بڑی بڑی مونچھوں سر پر پگڑی باندھے، اُن کے لیے ایک اجنبی جس کے ساتھ بی بی کا شادی کے بندھن میں بندھنا۔۔۔
بھٹو اور بی بی کے سحر میں مبتلا جیالوں کے لیے زرداری ایک اجنبی شخص، جو اُن کے درمیان وارد ہوگیا ہو۔ ایک عجیب سا رشتہ اور تعلق، دلوں میں جگہ پانا تقریباً ناممکن، مجھے زرداری ہمیشہ محبت، نفرت کے بیچ، اقتدار اور قید خانے کے بیچ، سیاسی اور کاروباری سفر میں کہیں معلق ہی نظر آئے۔
اور شاید زرداری کو بھی کہیں نہ کہیں یہ احساس زندگی بھر چھبتا ہی رہا ہو گا کہ تعلق اور بے تعلقی کے بیچ ، جیسے ایک ادھورا رشتہ۔۔۔
میری زرداری سے اکثر ملاقاتیں کراچی سینٹرل جیل میں مرتضیٰ بھٹو مقدمے کی سماعتوں کے درمیان رہیں۔۔۔
’پہلے سارے الزامات لگاؤ، غلط امیج بناؤ، پھر شخصیت کو مارنا بہت آسان ہوجاتا ہے،‘ زرداری نے اپنے مخصوص انداز میں مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے عجیب مصنوعی سی مسکراہٹ چہرے پر بکھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عجیب اتفاق، بھٹو کے بعد بے نظیر اور پیپلز پارٹی کے اقتدار کے 11 برس اور زرداری کی قید گزارنے کی مدت بھی لگ بھگ 11 برس۔۔۔
اکثر سوچتا ہوں 11 کا ہندسہ بھٹو خاندان کے لیے بدشگن ہے، 11 برس ضیا کا سیاہ دور، 1985 میں شاہنوار بھٹو کی پراسرار موت، 11 برس بعد 1996 میں مرتضیٰ بھٹو کا بہیمانہ قتل، 11 برس گزرنے کے بعد اندوہناک حادثے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت۔۔۔
لیکن کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ زرداری جو بے نظیر بھٹو اور پارٹی کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرتا تھا، وہ اس ملک کا صدر منتخب ہوگا اور پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالے گا، بھٹو خاندان کی سیاست کا رکھوالا بنے گا۔۔۔
مجھے یاد ہے جب میں بی بی کی فاتحہ کے لیے نوڈیرو گیا۔ زرداری، صنم بھٹو اور ناہید خان کے ساتھ تعزیت کی۔ مجھے اسی وقت پیپلزپارٹی کے مستقبل کے بدلتے خدوخال کی جھلک نظر آرہی تھی۔ نادر مگسی، ذوالفقار مرزا، آغا سراج درانی وغیرہ، یعنی سب زرداری کے یار غیر معمولی طور پر سرگرم نظر آرہے تھے۔
میں اپنے پرانے دوستوں اور سیاسی جگادریوں یعنی احمد شاہ، ڈاکٹر ایوب شیخ اور دیگر کے ہمراہ گفتگو کر رہا تھا کہ کیا زرداری وزیراعظم بنیں گے یا پھر صدر؟
کسی نے لقمہ دیا: ’صدر اور صرف صدر کے عہدے میں دلچسپی ہوگی۔۔۔ زرداری کی نفسیات کو سمجھیں، لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔۔۔ طاقت بھی چاہتے ہیں، سب کی ڈور ہلا کر کھیل بنانا چاہتے ہیں، سب سے سیلوٹ کروائیں گے اور سیاسی بساط بچھائیں گے۔‘
ہوا بھی کچھ یوں ہی۔۔۔ زرداری صدر، نئے اتحاد، نئی مفاہمتیں، نئے رشتے ناطے، نئے گٹھ جوڑ، نواز شریف کے ساتھ مفاہمت، اسٹیبلشمنٹ کے گڑھ پنجاب میں مفاہمت، پاکستان کھپے کا نعرہ، سندھ کارڈ پس منظر میں۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جہاں اعتماد والا تعلق، وہاں زرداری شطرنج کی طرح سیاسی چالیں چلنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔۔۔ اقتدار میں آتے ہی آئی ایس آئی اور آئی بی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لانے کے لیے نوٹیفکیشن کا اجرا، جو چند ہی گھنٹے بعد واپس بھی لینا پڑا۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور برداشت کو شاید ناپنے کی کوشش، ان کے اقتدار کے دوران ایک سیاسی کوشش رہی۔۔۔
حسین حقانی کی امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی، امریکی سیاسی، عسکری قیادت کے ساتھ غالباً متوازی روابط بھی قائم رکھنا چاہتے تھے۔۔۔ کیری لوگر بل میں سویلین قیادت کو اختیارات ملنے پر ایک دباؤ کا سامنا، فوراً ہی اُس وقت کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا امریکہ کا ہنگامی دورہ، بل میں مطلوبہ خواہشات کے بعد تبدیلیاں۔۔۔ زرداری کے دور میں سول ملٹری توازن بگڑتا، سنورتا رہتا تھا۔۔۔ زرداری کیونکہ مزاحمت کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ٹکراؤ نہیں ہونے دیا، جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع۔۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات کو سمجھ کر کھیلتے اور آزمائش کو صورتحال کے مطابق جانچتے اور پھر اپنے پتے استعمال کرتے۔
میمو گیٹ اسکینڈل پر جب صورت حال کشیدہ ہوئی اور ایک ٹکراؤ کی صورتحال بنی، زرداری اعصابی تناؤ کا شکار، اس حد تک بیمار کہ دبئی راہ فرار، کچھ دنوں میں واپسی۔۔۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے تنازع میں سویلین حکومت کمزور ہو رہی تھی، اسامہ کے ایبٹ آباد آپریشن میں مارے جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ دفاعی پوزیشن پر تھی، امریکہ سے تعلقات بے حد خراب تھے، اسی وقت اسمبلی میں وزیراعظم گیلانی سے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کا بیان بھی دلوایا اور یہ کہ اسامہ کو ساڑھے چھ سال کس نے ویزہ دیا وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، لیکن ٹکراؤ یا مزاحمتی ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ پورے پانچ برس۔۔۔ پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت کا دورانیہ مکمل ہوا۔۔۔
زرداری توہمات پسند رہے، میں جب ایوان صدر میں صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک بابا ننگے پیر ہال میں پھونکیں مارنے میں مصروف تھا، صدر زرداری کی ملاقات سے زیادہ دلچسپ ملاقات میری اسی بابا سے رہی۔۔۔ کالے بکروں کا صدقہ، زرداری کی گاڑی ایوان صدر سے نکلنے سے پہلے بابا کا اس کے گرد حصار کھینچنا معمول تھا۔۔۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران جب سیاسی عسکری قیادت کے درمیان سخت کشیدگی تھی، ان ہی بابا نے زرداری کو مشورہ دیا تھا کہ آپ سمندر کے قریب رہیں تو چند دنوں کے لیے زرداری کلفٹن میں بلاول ہاؤس منتقل ہوگئے تھے۔
خیر دورانِ مدت زرداری کے کچھ غیرمعمولی اقدامات بھی تھے، صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی، خیبرپختونخوا کی منظوری دے کر اے این پی کا دل جیتنا، صدارتی اختیارات بشمول 58 ٹو بی، جس کے تحت ماضی میں منتخب حکومتوں کو برطرف کیا جاتا تھا، اس کا خاتمہ۔۔۔
اٹھارویں ترمیم، وفاق سے صوبوں تک اختیارات کی منتقلی، اس طرح منظور کی گئی کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس کے دور رس نتائج کا اندازہ کچھ عرصے بعد ہی ہوسکا۔
زرداری رخصت۔۔۔ بے حد خود اعتماد کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بعد سمجھوتوں کی بیساکھیوں کے ساتھ پارٹی کو آگے چلا سکتے ہیں۔ زرداری نے کبھی عوام کی سیاست کی ہی نہیں تھی، وہ ایک پاپولر لیڈر رہے ہی نہیں، بھٹو اور بے نظیر کی طرح عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتے ہی نہیں تھے۔۔۔
وہ مفاہمت اور اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی رہے ہیں، ان کی پالیسیوں کے باعث پارٹی کو بے حد نقصان پہنچا، پنجاب میں پارٹی کی جڑیں جیسے سوکھ گئی ہوں، پارٹی بنجر زمین کی طرح رہی، بلاول کو سیاسی جانشینی علامتی طور پر ہی سونپی۔ مکمل طور پر، صدقِ دل سے پارٹی کی باگ دوڑ سپرد نہ کی، خود لگام تھامے سمجھتے رہے وہی پارٹی کو پھر سے اقتدار تک پہنچائیں گے، خام خیالی، خواب چکناچور۔۔۔
درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی قابل قبول کی فہرست میں کئی برس سے نہیں ہے، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی کرپشن کی زد میں ہیں، انتخابات سے قبل آپشن موجود تھا کہ ملک سے چلے جائیں۔۔۔ بلاول کو قبولیت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ سے دوستی دوامی نہیں ہوتی، بلوچستان حکومت کا خاتمہ، صادق سنجرانی کا بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب، زرداری اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد کے منتظر رہے، عمران خان-اسٹیبلشمنٹ کی نئی سانجھے داری سمجھنے سے شاید قاصر رہے۔ کرپشن کے مقدمات کے ملبے تلے، خرابی صحت، قید کی مشکلات، زرداری دلدل میں پھنستے نظر آتے ہیں۔۔۔
ضمانت پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں، سیاسی برزخ میں مزید زندگی بسر نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ تاریخ میں نام رقم کرنا چاہتے ہیں، شاید بھٹو کے چاہنے والوں کے دلوں میں اترنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن کرپشن، مقدمات کی دلدل زرداری کو مزید کھینچتی چلی جارہی ہے۔۔۔
قدیم روایتوں اور بائبل کی کہانیوں کے مطابق قربانی کا بکرا وہ جانور ہوتا تھا جس پر بستی کے سارے باشندے ہاتھ پھیر پھیر کر اپنے گناہ اس پر لادتے تھے, پھر صحرا میں لے جا کر قربان کر دیتے تھے۔
زرداری کے سیاسی گناہ ایک طرف لیکن کیا وہ پیپلزپارٹی کے گناہوں یا غلطیوں کو لادے قربانی کا وہ جانور تو نہیں؟ یا پھر سارے سیاسی گناہ ان کے ذمے۔۔۔
زرداری تاریخ کا ولن یا سیاسی کھلاڑی۔۔۔
زرداری سیاسی برزخ کا مسافر۔۔۔