گذشتہ ہفتے کے اختتام پر ہانگ کانگ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جمہوریت نواز جماعت کے امیدواروں نے 452 نشتوں پر واضح برتری حاصل کر لی، تاہم چین کے سرکاری میڈیا نے ان انتخابات کے نتائج کو اہمیت نہیں دی اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی۔
جمہوریت پسند مظاہرین گذشتہ کئی مہینوں سے خطے میں چین کی مضبوط سیاسی گرفت کے خلاف اور آزادانہ پالیسیوں کے حق میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 71 فیصد رہی اور جمہوریت نواز گروہ نے 90 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح 18 ضلعی کونسلز میں سے 17 کا کنٹرول انہیں حاصل ہوگیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سی سی ٹی اور پیپلز ڈیلی سمیت چینی سرکاری میڈیا نے ان انتخابات کے نتائج کی کوریج نہیں کی اور نہ ہی جتنے والے امیدواروں کے نام نشر یا شائع کیے۔
اس کے برعکس چینی زبان میں شائع ہونے والے پیپلز ڈیلی نے سرخی لگائی: ’سماجی بدامنی نے انتخابی عمل کو شدید متاثر کیا۔‘
انگریزی اخبار چائنا ڈیلی کے اداریے میں لکھا ہے کہ ان انتخابات کو ’ڈرا دھمکا‘ کر اور ’گندی چالوں‘ سے متاثر کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری نیوز ایجنسی ژنہوا کے مطابق یہ انتخابات فسادیوں کے ہاتھوں شکار ہو گئے۔
چینی قوم پرست اخبار گلوبل ٹائمز کے منگل کے سرورق پر لکھا کہ یہ انتخابات ہانگ کانگ کی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں تاہم یہ معاشرتی بدامنی کی سیاست کی نظر ہو گئے۔
مضمون میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جمہوریت پسندوں کی فتح کی زیادہ ترجمانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
گلوبل ٹائمز نے الیکشن نظام پر ہی سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ ’کثرت رائے دہندگی کے نظام کے تحت حزب اختلاف نے 80 فیصد نشستیں صرف 60 فیصد ووٹ کے ساتھ حاصل کی ہیں۔‘
چین کے مقبول ترین نیوز پروگرام ژین وین لینبو نے بھی ہانگ کانگ کے انتخابات کا ذکر نہیں کیا۔
دوسری جانب جمہوریت پسندوں کی جیت کے بعد چینی خطے کی انتہائی غیر مقبول سربراہ کیری لیم نے اعتراف کیا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ عوام چین نواز حکومت کی جانب سے گذشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی بدامنی سے نمٹنے کے طریقہ کار سے ناخوش تھے۔
اے ایف پی کے مطابق ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو نے منگل کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا: ’انتخابات کے نتائج سے حکومت میں موجود خامیوں پر عوام کی تشویش ظاہر ہوئی ہے جس میں موجودہ عدم استحکام سے نمٹنے اور تشدد کے خاتمے کے لیے بروقت کارروائی کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔‘
تاہم اس کے باوجود بھی انہوں نے ہانگ کانگ میں جاری جمہوریت نواز تحریک کے لیے کسی قسم کی رعایت دینے سے گریز کیا۔