اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے وکلا اور حکومت کی جانب سے پیش کردہ درخواستوں کی سماعت کی، جن میں استدعا کی گئی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ رکوا دیا جائے۔
اس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ سابق جنرل پرویز مشرف اشتہاری ملزم ہیں تو عدالت ان کا مقدمہ کیسے سن سکتی ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق سابقہ عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کے مقدمے میں پیش نہ ہونے کی صورت میں حق دفاع سے محروم کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر کو سنانا ہے، لیکن جنرل پرویز مشرف کے وکیل اور وفاقی وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
ان درخواستوں کی سماعت تین رکنی بنچ نے کی۔
پرویز مشرف کے وکیل نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے موکل کو سنے بغیر فیصلہ دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف وزارت داخلہ کی درخواست میں اس مقدمے کے لیے ماضی میں بنائی گئی پراسیکیوشن ٹیم کے کام کرنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
سینیئر وکیل اکرم شیخ کی سربراہی میں پراسیکیوشن ٹیم کو گذشتہ ماہ ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ پیر کی صبح دونوں درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے پرویز مشرف کے وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آگاہ ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ’اعلیٰ عدلیہ نے پرویز مشرف کو عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے کے باعث حق دفاع سے محروم قرار دے رکھا ہے۔‘
بنچ کے رکن جسٹس عامر فاروق نے وزارت داخلہ کے نمائندے ساجد الیاس بھٹی سے استفسار کیا کہ ’کیا درخواست کے دائر ہوتے وقت انہیں کیس کی تفصیلات کا علم تھا؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’جب آپ لوگوں کو حقائق ہی معلوم نہیں تو آپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’وزارت داخلہ کی درخواست میں صرف ایک پیرا گراف کیس سے متعلق ہے۔ جب پرویز مشرف اشتہاری ملزم ہیں تو اب یہ درخواست کیسے سنی جا سکتی ہے؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شفاف ٹرائل ہر کسی کا حق ہے۔ انہوں نے درخواست گزاروں کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ انہیں بولنے کا حق دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا حق مجروح ہوا ہے۔ جسٹس عامر فاروق کے استفسار پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ وہ اس کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات سے واقف نہیں ہیں۔ عدالت نےدرخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ وہ وزارت قانون کے ریکارڈ سے مطمئن کریں کہ بیان کیے گئے حقائق درست ہیں۔
عدالت نے سنگین غداری کیس کے لیے مجاز شکایت کنندہ اور خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
لاہور میں درخواستِ سماعت منظور
دوسری جانب منگل ہی کو لاہور ہائیکورٹ میں پرویز مشرف کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو 28 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
عدالت نے وزارت قانون و انصاف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور سمری بھی طلب کر لی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر بطور اعتراض کیس سماعت کی۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے وکیل خواجہ طارق رحیم عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت قانون و انصاف، ایف آئی اے اور خصوصی عدالت کے رجسٹرار کو فریق بنایا گیا ہے۔
عدالت نے سابق صدر کے وکیل سےبھی استفسار کیا کہ جو نظرثانی کی درخواست ہے اس میں آپ درخواست کیوں نہیں دائر کرتے کہ اس بارے میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہدایات دے رکھی ہیں؟
سابق صدر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب پرویز مشرف پاکستان آئیں گے چاہے جس شہر میں اتریں سب سے پہلے ٹربیونل کے فیصلے کا سامنا کریں گے ۔
عدالت کو مزید بتایا گیا کہ ٹربیونل یا خصوصی عدالت خود ہی غیر قانونی ہے، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر چیز میں ڈائنامکس بدلتے ہیں۔ آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر یہ عدالت کیسے سماعت کر سکتی ہے؟ بھارتی سپریم کورٹ نے 2017 میں اپنے حکم پر نظر ثانی کی کیونکہ سپریم کورٹ میں کسی کا بنیادی حق متاثر ہوا تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ اسے سارا قانون آتا ہے تو وہ بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔ قانون مسلسل پڑھنے سے آتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے کیس آتے ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر کے وکیل سےاستفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ہیں؟عدالت کو بتایا گیا کہ پرویز مشرف ٹرائل عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے۔ عدالت نے سابق صدر کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔
عدالت نے وزارت قانون و انصاف سے خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری اور معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کر لیا۔
دوران سماعت عدالت نے سابق صدر کے وکیل سے پوچھا کہ ٹی وی کی خبر ہے کہ اسلام آباد میں بھی کوئی درخواست دائر ہوئی ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ نے وہ درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے 19 نومبر کو موقف سنے بغیر غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے، جب کہ پرویز مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج مقیم ہیں، اور اسی وجہ سے خصوصی عدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کر سکے۔
درخواست کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق کیس کودوبارہ سماعت کے لیے شروع کیا جائے اورخصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم معطل کیا جائے نیز غداری کیس کی سماعت پرویز مشرف کے تندرست ہونے تک ملتوی کرنے کا حکم دیا جائے۔ درخواست میں مزید استدعا ہے کہ عدالت سابق صدر کی صحت کے تعین کے لیے غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے۔