بالی وڈ میں ہالی وڈ کی طرز پر ’می ٹو تحریک‘ میں مبینہ جنسی ہراسانی کرنے والوں کو بے نقاب کیے جانے کے ایک سال گزر جانے کے بعد کئی خواتین کا کہنا ہے کہ جن افراد پر الزام لگایا گیا وہ تو دوبارہ شہرت حاصل کر چکے ہیں لیکن ان پر الزام لگانے والی خواتین ابھی تک بھگت رہی ہیں۔
امریکہ میں می ٹو کی تحریک نے طاقتور افراد جیسے کے ہاروے وینسٹن، کیون سپیسی اور بریٹ راٹنر کے زوال میں اہم کردار ادا کیا تھا اور متاثرین کو سامنے آکر بولنے کی بنیاد پر تعریف اور تحسین سے نوازا گیا اور ان کے مقدمات لڑنے کے لاکھوں ڈالر اکٹھے کیے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس حوالے سے مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ خواتین کو کافی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جب گلوکارہ سونا موہاپترا نے موسیقار انو ملک پر نازیبا جنسی طرز عمل کا الزام عائد کیا تو انہیں کہا گیا کہ وہ موسیقی کے شو ’سا رے گا ما پا‘ میں اپنی جج کی کرسی خالی کر دیں۔ گذشتہ ماہ سونا موہاپترا کا کہنا تھا کہ ’مجھے مشکلات کھڑی کرنے والی قرار دے کر اچانک شو چھوڑنے کا کہا گیا۔‘
زی ٹی وی کے پروگرام پروڈیوسرز نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ پروڈیوسرز نے اے ایف پی کو بتایا کہ سونا موہاپترا کو شو سے الگ کیے جانے کا می ٹو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس معاملے نے انو ملک کو مجبور کیا کہ وہ گذشتہ سال سونی ٹی وی کے شو’انڈین آئیڈل‘ سے الگ ہو جائیں۔ ان کے خلاف اسی نوعیت کا ایک مقدمہ 1990 میں بھی دائر کیا گیا تھا۔
لیکن کچھ عرصہ بعد انہیں بحال کر دیا گیا۔ اس حوالے سے سرگرم افراد کی مہم چلانے کے بعد انو ملک جو ان الزامات کو ’غلط اور غیر تصدیق شدہ‘ قرار دے چکے تھے گذشتہ ہفتے دوسری بار اس شو سے الگ ہو گئے۔
یہ می ٹو کی بالی وڈ میں ایک انوکھی فتح تھی جہاں کئی بڑے نام ہراسانی کے الزامات کی زد میں آنے اور چند ماہ پس منظر میں رہنے کے بعد اپنے کرئیر دوبارہ بحال کر چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہدایت کار وکاس بہل جن کا نام ابتدائی طور پر ہٹ فلم ’سپر 30‘ کی ٹیم سے ایک جنسی ہراسانی کی شکایت کے بعد الگ کر دیا گیا تھا ایک اندرونی کمیٹی سے نام صاف ہونے کے بعد دوبارہ بحال ہو چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی کی تحقیقات میں متاثرہ فریق کو شامل نہیں کیا گیا۔
فلمساز سوبھاش کپور کو بالی وڈ کے مشہور اداکار عامر خان کی فلم سے ہراسانی کے الزامات کے بعد الگ کر دیا گیا تھا، لیکن عامر خان یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے کہ صرف عدالت ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ سوبھاش قصور وار ہیں یا نہیں۔
بھارت میں اس بارے میں فیصلہ آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کیونکہ بھارت کا قانونی نظام پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
تجربہ کار اداکار الوک ناتھ جو کے ریپ کے حوالے سے تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے شکایت کنندہ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ان کی فلم ’میں بھی‘ (می ٹو) جن میں وہ جنسی ہراسانی کے مقدموں کی سماعت کرنے والے جج کا کردار ادا کر رہے ہیں ریلیز ہونے کے لیے انتظار کر رہی ہے۔
گلوکارہ شویتا پنڈت کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں ان مردوں کو جو مشورہ دیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک سال کے لیے منظر عام سے ہٹ جائیں اور لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔‘ شویتا جب 15 سال کی تھیں تو موسیقار انو ملک نے مبینہ طور پر انہیں کام حاصل کرنے کے بدلے بوسہ کرنے کا کہا تھا۔
شویتا نے کلاسیقی موسیقی کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 2001 میں ہونے والے اس واقعے کے بعد وہ اپنی ذات میں محدود ہو کر تنہائی پسندی کا شکار ہوگئیں تھیں۔
انہوں نے شکستہ الفاظ میں کہا کہ ’میں نے لوگوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ گانا ہی وہ ذریعہ تھا جس سے میں کھل کر اظہار کر سکتی تھی۔‘
می ٹو مہم کے انہیں حوصلہ دینے تک انہوں نے کبھی اس واقعے کا ذکر نہیں کیا تھا۔
اس واقعے کو منظرعام پر لانے کے بعد سے انہیں سخت ردعمل اور آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ مرد اس طرح سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کو نوکری دی تو شاید یہ کچھ کہہ دے گی اس لیے احتیاط کرنی چاہیے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک جب کوئی عورت بولتی ہے تو وہ مشکل پیدا کرتی ہے۔ کئی خیر اندیشوں نے مجھے خاموش رہنے کا کہا لیکن میں اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔‘
انوشہ خان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جنسی ہراسانی کے خلاف تربیتی ورکشاپس منعقد کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’بالی وڈ ابھی تک اس میں الجھا ہے کہ یہ معاملہ موجود ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث ذمہ داروں کی حفاظت کا نظام بہت طاقتور ہے۔‘
ان کے مطابق کئی ایسے مرد جن پر الزام لگایا گیا تھا کافی آسانی سے اپنا کرئیر دوبارہ بحال کر چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ بحالی کسی پچھتاوے کے بغیر ہے۔‘
وہ معاملہ جس سے انڈیا کی می ٹو تحریک شروع ہوئی تھی اسے بھی مسائل کا سامنا ہے۔
ادکارہ تنوشری دتہ نے بالی وڈ کے اداکار نانا پاٹیکر پر انہیں 2008 میں ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران غیر مناسب انداز میں چھونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کی عمر اس وقت 24 سال تھی جبکہ نانا پاٹیکر اس وقت 57 برس کے تھے۔ دو اور افراد جن میں ایک صحافی اور ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر شامل ہیں نے عوامی طور پر ان کے اس دعوے کی تصدیق کی تھی۔
سابقہ مس انڈیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس الزام نے ان کا کرئیر مکمل طور پر ختم کر دیا۔ حتی کے پولیس نے ان کی ہراسانی کی رپورٹ درج کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تنوشری کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے دوست کھو دیے اور بہت عرصے تک میں ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ جب آپ سے آپ کا کام چھین لیا جائے تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس صبح جاگنے کا کوئی جواز ہی نہیں۔‘
دتہ نے دس سال بعد ہونے والے ایک انٹرویو میں اپنے الزامات کو دہرایا جس کے بعد بھارت بھر کی خواتین نے اس حوالے سے شدید ردعمل دیا۔ پولیس نے ان کی 2008 کی شکایت کو قبول کر لیا لیکن ناکافی ثبوت کی بنا پر جون میں یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا۔
تنوشری نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے درست انداز میں تفتیش نہیں کی۔ نانا پاٹیکر جو کئی بار ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں نے اے ایف پی کو اس حوالے سے بات کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
تنوشری دتہ جو پولیس کے فیصلے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی رہی ہیں کے لیے می ٹو ہی واحد امید اور شروعات ہے۔ ان کا کہنا ہے ’میں نے کبھی انقلابی بننے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن وہ پہلے ہی میرا کرئیر برباد کر چکے ہیں تو اب میری پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔‘