اکثر لوگ پاکستانی سیاستدانوں پر یہ تنقید کرتے ہیں کے وہ ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں اور عوام کے مسائل حل نہیں کرتے لیکن یہ ایک غلط تاثر ہے۔
مغرب کے جمہوری اصول ہی اس بنیاد پر ہیں کے سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی فضا میں ہی عوام کی فلاح ہے۔ اس لیے کے اس مقابلے کی بنیاد پر حکومتوں کا احتساب بھی ہوتا ہے اور بہتر فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ حالات جب خراب ہوتے ہیں جب غیر جمہوری قوتیں انتخاب کے عمل کو یرغمال بنا کر ایسے لوگوں کو قوم پر مسلط کر دیتی ہی جو مقابلے کی فضا کو ذاتی حملے کر کے پراگندہ کرتے ہیں اور مسائل پر بحث کی بجائے ذاتی دشمنیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال غیر جمہوری قوتوں کے بہترین مفاد میں ہے اس لیے کے ایسی صورت میں جمہوری اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان جو چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا اس سے یہ امید تھی کے تصادم کی بجائے سیاسی پارٹیاں صحت مند مقابلے کی فضا میں کام کریں گی۔ کسی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی جس سے تیسرے امپائر کی سیاسی قوت میں کمی آئی۔ یہ صورت حال ان کے لیے پریشان کن تھی اور اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کے ایک ناتجربہ کار مگر غرور سے لبریز سیاست دان کو آگے لایا جائے جو ایک دفعہ پھر سیاست میں تصادم کی فضا قائم کرے اور غیرجمہوری قوتیں پھر سے اس ملک پر قابض ہو جائیں۔ آج ملک میں یہی صورت حال ہے۔ اس کا سارا نقصان ملک کو ہو رہا ہے مگر تیسرے امپائر کو اس کی کوئی فکر نہیں۔
یہاں میں یہ نہیں کہہ رہا کے پی پی پی اور پی ایم ایل نون نے عوام کے لیے کوئی بڑے کام کئے ہیں۔ وہ بھی اس نظام سے گروہی فائدے اٹھاتے رہے ہیں۔ موجودہ نظام میں متصادم جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں کے اس میں جمہوری اور ریاستی اداروں کے درمیان توازن ختم ہو چکا ہے۔ اب تمام ادارے قبائلی روایات پر چل رہے ہیں جبکہ آئین، قانون اور روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی درخواست پر جو فیصلہ دیا وہ بھی ماورائے آئین ہے اور نظریہ ضرورت کی بنیاد پر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ نے تاثر یہ دیا کے انہوں نے ایسا اداروں کے درمیان تصادم کو ختم کرنے کے لیے کیا۔ مگر انہیں کس نے یہ اختیار دیا کے وہ اس بات کا تعین کریں۔ اور ایک نئے آرمی چیف کے آنے سے کون سا طوفان آنے والا تھا۔ جب جنرل راحیل شریف اپنی مدت میں توسیع چاہتے تھے اس وقت بھی یہی تاثر دیا جا رہا تھا کے ان سے اچھا جنرل پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ان کا سربراہ رہنا ضروری ہے۔ اور اب ایک دفعہ پھر یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر فوج ایک ادارہ ہے جسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے کافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ جمہوریہ ایک قبائلی نظام پر قائم ہے اور ہر شخص کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قبیلے کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتیں نہ جمہوری ہیں اور نہ سیاسی بلکہ خاندانی کاروبار کی طرح کام کرتی ہیں۔ خلیج کے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کچھ سیاسی اور غیر سیاسی شہزادے ہیں جنہیں ناراض نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لیے اگر قانون اور آئین بھی بدلنا پڑے یا اتوار کے دن دفتر کھول کر فائلوں پر دستخط کرنے پڑیں تو وہ ناممکن نہیں ہے۔ اس جمہوریہ کو چلانے کے لیے پیسے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں مگر خرچ شہزادوں پر کئے جاتے ہیں۔ عوام غریب اور پس ماندہ ہیں جبکہ شہزادے دنیا کی ہر آسائش کے مزے لیتے ہیں۔
موجودہ جمہوریہ کو جمہوریہ کہنا بھی جمہوریت کی توہین ہے۔ یہ ایک شہزادوں کی مملکت ہے اور عوام کا فرض ہے کے ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہنے دیں۔ اب اس غیر جمہوریہ کو رد کر کے ہمیں ایک نئی عوامی جمہوریہ کی تعمیر کرنی چاہیے۔