امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایک مسودۂ قانون منظور کیا ہے جس میں سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے مبینہ جبر میں ملوث چینی اہلکاروں پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ قانون منگل کو 407:1 کی اکثریت سے منظور ہوا اور اس میں صدر ٹرمپ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو حراست میں لیے جانے کے خلاف آواز بلند کریں۔ ابھی اسے سینیٹ سے منظور ہونا ہے جس کے بعد یہ منظوری کے لیے صدر ٹرمپ کے پاس جائے گا۔
اس سے چند ہی دن قبل صدر ٹرمپ نے ایک مسودۂ قانون پر دستخط کیے تھے جس میں ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے لیے کانگریس کی حمایت ظاہر کی گئی تھی۔ چین نے اس کے جواب میں امریکی جنگی جہازوں کو ہانگ کانگ آنے سے روک دیا تھا، اور چند امریکی غیر سرکاری اداروں پر پابندیاں لگا دی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نئے قانون کا نام ایویغور انسانی حقوق کی پالیسی کا قانون ہے اور اس میں سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چین چانگو پر خاص طور پر پابندیاں لگانے کا کہا گیا ہے۔ چانگو پر الزام ہے کہ وہ اویغور کیمپوں کے ’منصوبہ ساز‘ ہیں۔ چین ان کیمپوں کو ’پیشہ ورانہ تربیتی کیمپ‘ قرار دیتا ہے۔
اس قانون کے ایک حمایتی سینیٹر مارکو روبیو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین ’اویغور اور دوسری مسلمان اقلیتوں کی نسلی اور ثقافتی شناخت مٹانے کے لیے منظم طور پر کام کر رہا ہے۔ آج کانگریس نے ایک اور اہم قدم اٹھایا ہے جس کے تحت انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں پر چین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔‘
اس قانون میں ان چند پالیسیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت صرف چند لاکھ زیرِ حراست افراد پر ہی ہیں، بلکہ سنکیانگ کے تمام ایک کروڑ کے قریب اویغور باشندوں کی کڑی نگرانی کر رکھی ہے۔
ان میں چہرے شناخت کر لینے والے سافٹ ویئر، کون کتنی بار نماز پڑھتا ہے، اس کا حساب رکھنے والے کیو آر کوڈ، ہائی ٹیک نگرانی کے آلات حتیٰ کہ بچوں سے ڈی این اے کے نمونے لینا تک شامل ہیں۔
اگر یہ مسودہ سینیٹ سے بھی منظور ہو گیا تو پھر یہ وائٹ ہاؤس پر منحصر ہو گا کہ وہ اس کی حتمی منظوری دے۔ تاہم اس میں ایک ایسی شق بھی موجود ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ اپنی صوابدید کے مطابق امریکی قومی مفاد کے پیشِ نظر کسی پابندی میں چھوٹ بھی دے سکتے ہیں۔
اس کے جواب میں بدھ کو چین نے ایک طویل بیان جاری کیا جس کہا گیا ہے کہ یہ مسودۂ قانون ’سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو جان بوجھ کر مسخ کر رہا ہے،‘ اور یہ مسودہ ’چین کی سرکاری پالیسی پر بےرحمانہ حملہ ہے۔‘
یہ بیان چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہُوا چن ینگ کی جانب سے آیا ہے اور اس میں بیجنگ کا اس موقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ واشنگٹن خود ’بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولووں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور چین کے اندرونی معاملات میں بےجا مداخلت کرتا ہے۔‘
ہوا چن ینگ نے مزید کہا کہ سنکیانگ میں چینی پالیسیاں ’انسانی حقوق، یا نسل یا مذہب سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ تشدد، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے لڑنے کے لیے ہیں۔‘ چین دعویٰ کرتا ہے کہ 2017 میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں کی وجہ سے اسے ’انتہا پسندی کے انسداد‘ کے لیے ’تربیتی مراکز‘ قائم کرنا پڑے ہیں۔
چینی بیان میں کئی بین الاقوامی اداروں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں چین کی انسدادِ دہشت گردی کا کارروائیوں کی حمایت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر مارچ میں آنے والا اسلامی تنظیم او آئی سی کا بیان جس کے مطابق ’بین الاقوامی برادری کا مرکزی دھارا بڑی حد تک بیجنگ کی حمایت‘ کرتا ہے۔
درحقیقت، سنکیانگ میں جاری صورتِ حال نے بین الاقوامی برادری کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اس پر بارہا تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، جب کہ اکثر یورپی ملکوں نے اسی سال کے شروع میں اویغوروں کے حق میں ایک خط بھی لکھا تھا۔
لیکن دوسری طرح وہ ملک ہیں جن کے چین کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات ہیں اور وہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو اپنی سلامتی کے معاملات سے نمٹنے کا حق حاصل ہے۔
© The Independent