اگر عبد الولی خان یونیورسٹی کے لیکچرار اختر خان کو محض اپنے خیالات کے اظہار کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، تو حکومت کا یہ فیصلہ غلط ہے۔ اختر خان کے ساتھ میری کبھی تفصیلی گفتگو تو نہیں ہوئی لیکن میں ان کی فیس بک اور ٹویٹر پر پوسٹس اور طنزیہ تبصرے پڑھتا رہتا تھا۔ میں ان کے چند تبصروں اور بیانات سے متفق نہیں ہوں، جو میری رائے میں نامناسب ہیں، خاص طور پر کسی استاد کے لیے۔
اختر خان ایک بےچین نوجوان دانشور لگتے ہیں جو اپنی تنقید میں اکثر براہ راست اور سخت رہتے تھے۔ تاہم وہ معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں وہی بولتے ہیں۔ اس طرح کے شخص کی گرفتاری سراسر ناجائز ہے۔
اختر خود مختار اور کھلے ذہین کے مالک ہیں مگر استاد ہونے کے ناطے انہوں نے شاید معاشرے میں کسی مقصد کے لیے ایک اپنے کردار اور حیثیت کو نظر انداز کر دیا۔ اساتذہ جو کلاس میں دوسرے لوگوں کے بارے میں بہت مضبوط یا متعصبانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں یا توہین آمیز تبصرے کا استعمال کرتے ہیں دراصل وہ اپنے طلبا کو مشکل میں ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں طلبا کو اپنے اساتذہ پر تنقید کرنے یا ان سے اختلاف کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ کیی اساتذہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی رائے اور نکتہ نظر کو طلبا پر مسلط کرتے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہا جاسکتا کہ اختر خان بھی یہی کر رہے تھے لیکن ایک استاد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے طلبا مختلف معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے آتے ہیں اور مختلف ثقافتی، سیاسی اور مذہبی امور کے بارے میں ان کی مختلف تفہیم ہو سکتی ہے۔ اساتذہ کو طلبہ پر زبردستی کرنے کی بجائے، طالب علم کو مناسب سوالات کرنے، سوچنے اور تنقیدی تجزیہ کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔ اساتذہ کو اختلاف رائے کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور رائے کے فرق کو سراہنا چاہیے۔
صرف ایک اعلی سطح کی ڈگری (ماسٹرز یا پی ایچ ڈی) حاصل کرنے والا اچھا استاد نہیں بن سکتا۔ ہمارے پاس سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر سینکڑوں ہزاروں اساتذہ موجود ہیں۔ بہت کے پاس اعلی تعلیمی ڈگریاں ہیں لیکن سب اچھے استاد نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں اچھے استاد بننے کی خوبی، جذبہ اور لگن کی کمی ہوتی ہے۔کئی اساتذہ اپنے سیاسی تعصبات پر قابو نہیں پا سکتے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی کے کچھ اعلی سطح پر پروفیسرز بھی اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر نظر آنے میں ناکام ہیں۔ ایسے اساتذہ طلبا کا احترام نہیں کرتے اور انہیں برابر کے شراکت دار کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے نظام تعلیم کو ایک بامقصد اور جامع اصلاح کی ضرورت ہے جس کی توجہ مندرجہ ذیل امور پر ہونی چاہیے:
1: طویل مدتی سمت اور حمکت علمی تیار کی جائے جس پر سب متفق ہوں۔
2: تعلیم اور معاشرے کے مختلف طبقات اور شعبوں کے مابین رابطے قائم کیے جائیں۔
3: مندرجہ بالا میں پرائمری، ثانوی اور اعلی تعلیم کے نصاب، نصاب ڈیزائن اور ترقی کے عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسے تعلیمی پروگراموں اور کورسز متعارف کروایا جائیں جن میں فکری اور تکنیکی طور پر مستحکم جدید لوگوں کو تیار کیا جائے جو تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت اور معاشرے کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
4: اساتذہ کے انتخاب اور تقرری کے عمل کی مکمل تنظیم نو، جس میں امیدواروں کی بہتر نفسیاتی تشخیص اور ٹیسٹ شامل ہوں۔
5: تمام تعلیمی سطحوں پر اساتذہ کی تربیت کے پروگرام۔ اساتذہ کو لازمی طور پر جامع پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کو باقاعدگی سے پاس کرنا لازمی ہو۔
تعلیمی اداروں کو روزگار کے مراکز اور فیکٹری نہیں ہونا چاہیے جو فکری طور پر معذور،
لاشعور اور ناقص تربیت یافتہ/ ہنر مند نوجوانوں کے لشکر تیار کریں۔