آج سے کئی دہائیاں پہلے فیصل آباد (جو اس وقت لائل پور ہوا کرتا تھا) کے صابریہ سراجیہ گورنمنٹ ہائی سکول میں نبیل چیمہ نام کے اردو کے استاد ہمیں زیر زبر پیش کے قواعد سمجھاتے ہوئے اکثر جذباتی ہو جاتے تھے۔
اپنے ہاتھوں اور ہاتھ میں موجود ڈنڈے کا فراخدلانہ استعمال کرتے ہوئے ہمارے ننھے ذہنوں کو ان گھمبیر تبدیلیوں سے آشنا کرواتے تھے جو زیر زبر پیش کے غلط استعمال سے رونما ہو سکتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ مثال ’مَلک اور مُلک‘ تھی۔ وہ کہتے تھے کہ محض ایک پیش کے لگانے سے ایک ذات ایک جغرافیائی حقیقت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک فرد سرحدوں تک پھیل جاتا ہے اور جملے میں استعمال ہونے والے تمام ضابطے ٹوٹ پھوٹ کر ایک بےمعنی اور بےمقصد پیغام بن جاتے ہیں۔
وہ چلا چلا کر ہم سے کلاس میں رٹے لگواتے تھے ’مَلک مَلک ہے، مُلک مُلک ہے ، مَلک مُلک نہیں ہے اور نہ مُلک مَلک ہے۔‘ چیمہ صاحب کی مار کھانے کے بعد ہم نے یہ سبق ازبر کر لیا۔ اس کے بعد ہم نے بھی اپنے بچوں کو اردو سکھاتے ہوئے اسی مثال کو ہی استعمال کیا۔
بہت عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ چیمہ صاحب کی سخت مار کے باوجود اردو لکھنے میں زیر زبر پیش کی احتیاط سیکھنے کا اس سے بہتر شاید کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ زبردست ہونے کے لیے زیردست ہونا پڑتا ہے۔ مگر 2019 میں ہمارا یہ اعتماد ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ آج کے پاکستان میں کھڑے ہو کر جب ہم چیمہ صاحب کی پٹائی کو یاد کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ محترم استاد مستقبل شناس نہیں تھے۔
اس ملک میں زیردست کبھی زبردست نہیں ہو سکتا۔ یہاں زیر زبر پیش بےمعنی اعراب ہیں۔ ان علامات کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ کہ مَلک ہی مُلک ہے اور مُلک مَلک۔
ظاہر ہے اس سنکی پن کے طاری ہونے میں ملک ریاض کے لندن میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے والے کیس کا بڑا ہاتھ ہے۔ حکومت، حزب اختلاف کی جماعتوں اور میڈیا مالکان، صحافیان و دانشوران کی اکٹھی کاوش کے باوجود سوشل میڈیا نے اس کیس کی معلومات ہر گھر میں پہنچا دی ہیں۔ سوالوں کا ایک طوفان ہے جو جواب کی تلاش میں ہر بڑے دروازے سے ٹکراتا اور پھر جھنجھلاہٹ میں واپس چلا جاتا ہے۔ چٹخ پٹخ باتیں کرنے والے دم سادھے ہوئے ہیں۔
ریاست مدینہ کی عمرانی کتاب کے اوراق بھی کورے ہو گئے ہیں۔ عاشق اعوان کی احتساب سے عاشقی اور شیخ رشید کی کرپشن کے خلاف جہاد کی شیخیاں سب ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ نہ قوم کے امیج کے بارے میں مقتدر حلقے پریشان ہیں اور نہ کوئی پسندیدہ صحافیوں کو بلا کر جے آئی ٹی بنانے پر اصرار کر رہا ہے۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سب کی بولتی بند ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہزاد اکبر جیسے لوگ یہ وضاحت کریں کہ وہ ملک ریاض کے پریس انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں یا حکومتی پالیسی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب جسٹس جاوید اقبال اپنے اقبال کو بلند کرتے اور تاریخ میں جاوید ہونے کا بندوبست کرتے ہوئے پوچھتے کہ پاکستان سے کتنی رقوم کتنے عرصے میں کس طریقے سے باہر گئی ہیں؟
یہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ ہمارے ہر وقت متحرک ادارے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ پاکستان میں یہ پیسے کیسے بنے؟ کتنے عرصے میں بنے؟ کہاں سے بنے؟ اور کیوں کر یہاں سے بھیجے گئے؟ لیکن زبر زیر ہو گئی اور پیش پیش ہونے والے قابل شرم پس و پیش کرنے لگے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک حیران کن کاوش کے ذریعے مُلک کو مَلک کے لیے وقف کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ برطانیہ میں پیسے کے جرائم کی تحقیق کرنے والا ادارہ اکاؤنٹ کو فریز کر کے قانونی کارروائی کرتے ہوئے چھپایا ہوا مال قبضے میں لیتا ہے۔ چھپانے والی پارٹی سے ایک خطیر رقم بطور پاداش عدالتی کارروائی سے ہٹ کر وصول کرتا ہے اور حکومت پاکستان کو یہ کہہ کر واپس کر دیتا ہے کہ یہ پیسہ پاکستانی عوام کا ہے۔ یہ کارروائی جس معاہدے کے تحت ہوتی ہے اس کو جسٹس اینڈ پارٹنر شپ ایگریمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ جو برطانیہ اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بارڈر پار غیر قانونی یا مشکوک معاشی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے طے پایا تھا۔
حکومت پاکستان برطانیہ کے اندر ہونے والی اس کارروائی سے مستفید ہونے کی بجائے عوام کی اس رقم کو سپریم کورٹ کی طرف سے لاگو کیے گئے 460 ارب روپوں پر مبنی ایک اور کیس میں لاگو کیے ہوئے جرمانے کے متبادل کے طور پر ماننے کو جھٹ پٹ تیار ہو جاتی ہے۔ احتساب کے نام پر چنگھاڑتے اور منہ سے آگ اگلتے مارخور بھیگی بلی بن کر وضاحتیں کرنے پر مامور ہو جاتے ہیں کہ عمران خان حکومت نے یہ کتنا بڑا کارنامہ کیا ہے۔ کابینہ کے وہ وزرا جو ٹیلی ویژن پر ٹاک شوز میں اپنے مخالفین کو سانس نہیں لینے دیتے چھپ چھپ کر صحافیوں کو فون کرکے بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے عظیم قائد نے کابینہ میں بیٹھے اپنے احتسابی فنکاروں کے اس مشورے کو حتمی طور پر لاگو کر دیا کہ یہ معاملہ کسی طور زیر بحث نہ لایا جائے۔
حیرانی یہ بھی ہے کہ کس طرح عدالت عظمیٰ، جس کے اولین مقاصد میں عوام کے اثاثوں سمیت تمام بنیادی حقوق کا تحفظ شامل ہے، اس محیر العقول حکومتی پالیسی کو ماننے کو تیار ہو گئی اور یہ کہہ دیا کہ ان کا مقصد جرمانے کی وصولی ہے، ان کو اس سے کیا غرض کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اس زاویے سے مفید معلومات دی گئیں کہ برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ تصفیے سے حصول شدہ رقم کو سپریم کورٹ میں کیسے جمع کروایا جا سکتا ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ اور برطانوی کرائم ایجنسی کا کیس میں کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ملک ریاض کی طرف سے یہ کہا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی جائیداد سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کے جرمانے کو ادا کرنے کے لیے بیچی۔ یعنی حقیقت میں وہ یہ فرما رہے ہیں کہ برطانیہ کی کرائم ایجنسی ان کے قیمتی اثاثوں کو سپریم کورٹ کے جرمانے کی ادائیگی کرنے میں ایک دوستانہ معاون کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ عقل کی توہین اور کیا ہو گی۔
لیکن عقل کی توہین کے بہت سے اور مراحل بھی باقی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس کیس کے حوالے سے اٹھنے والا طوفان واپس سمندر میں جا کر غرق ہو جائے گا۔ اس کیس میں موجود شخصیت کا وزن، اس کی قدر اور اس کا دائرۂ کار تمام ریاستی ڈھانچے پر حاوی ہے۔ یقیناً پیسہ بولتا ہے اور بولنے والوں کی بولتی بھی بند کر دیتا ہے اور پھر جب ہر کسی نے پیسے کے اس دربار سے استفادہ کیا ہو اور ہر دوسرا شخص اس در پر ماتھا رگڑ کر اپنے کام نکلوا رہا ہو تو کون اس کے دروازے پر تالا لگائے گا؟ یہاں سے آگے جا کر کون اپنے پر جلوائے گا؟
ہر کوئی اخلاقی اور مالی مقروض ہے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ پر بھاری ہے۔ تعین کروانے والا متعین ہونے والوں سے جوتے پالش کرواتا ہے۔ وہ اس کی پگڑی تک ہاتھ کیسے اٹھائیں گے؟ مگر اس تمام قصے کا ایک نتیجہ یقیناً نکلے گا اور وہ یہ کہ احتساب کے اس ان لَکی پاکستانی سرکس میں بندروں کی اچھل کود بڑھ جائے گی تاکہ تماشا قائم رہے اور دھندہ چلتا رہے۔ لہٰذا آپ کو حزب اختلاف کی جائیدادوں کی قرقی، نئے ریفرنس، نئی تحقیقات، درجنوں مزید پریس کانفرنسوں پر مبنی اور تمام شرم سے عاری ایک نئی ڈراما سیریز دیکھنے کو ملے گی۔
اس حکومت کے اراکین اور ان کی پُشت پناہی کرنے والے حماقت کی اس منزل پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے حقیقت ان کی نظر سے مکمل طور پر اوجھل گئی ہے۔ وہ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عوام بےوقوف ہیں اور اس کو بے دماغ بھیڑوں کی طرح آسانی سے ادھر ادھر ہانکا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی تمام تر اخلاقی عریانیت کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بھرم قائم ہے۔ وہ کالک کو مسکارا اور تہمت کو تعریف جانتے ہیں۔
ان کے لیے مَلک مُلک ہے اور مُلک مَلک۔ نہ جانے چیمہ صاحب آسمان پر بیٹھے اپنی تدریسی کاوش کی اس بے مثال بے حرمتی پر کیا سوچتے ہوں گے۔ کیا مُلک ہے، کیا مَلک ہے۔