’تو کلثوم صاحبہ، اس حالت میں اور اس طرح کب تک آپ یوں کار میں ٹنگی بیٹھی رہیں گی؟‘ میرا اگلا سوال تھا۔ ان کا جواب تھا ’جب تک یہ حصار نہ ٹوٹے، اور مجھے آزادانہ چلنے پھرنے کی آزادی نہ ملے۔‘
’خاصی گرمی ہے، حبس کی سی کیفیت ہوگی کار میں تو؟‘ میرا استفسار تھا۔ ’ہوا کرے، پرواہ نہیں ہے۔‘ جواب آیا۔
’کھانے پینے کا سامان ہے آپ کے ساتھ؟‘ میں نے پوچھا۔
’ہے، بہت کچھ ہے۔‘ مختصر جواب ملا۔
’قدرتی حاجات کا یعنی رفع حاجت کا کیا کیجیئے گا؟‘ میں نے جاننا چاہا۔ ’آپ پرواہ نا کریں شفیع صاحب، جو ہو سکے گا، کر لیں گے،‘ بیگم کلثوم نواز کے لہجے میں سختی اور عزم بولا۔
بیگم کلثوم نواز سے میری یہ گفتگو 8 جولائی 2000 کی ہے جو بی بی سی کے حالات حاضرہ کے ریڈیو پروگرام سیربین میں شامل تھی۔ لاہور میں ہمارے نامہ نگار شاہد ملک گراونڈ سے، لفٹر سے اٹھی گاڑی سے بیگم کلثوم نواز اور ان کے ساتھ کار میں موجود جاوید ہاشمی، لندن سے پیش کردہ اس لائیو گفتگو میں میرے ساتھ شامل تھے۔ دنیا یہ سہ طرفہ تماشہ سن رہی تھی۔
پولیس کلثوم نواز کی گاڑی کو 8 جولائی 2000 کو گرفتاری کے وقت کھینچ کر لیجاتے ہوئے۔ وہ لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے گرد پولیس کی رکاوٹیں عبور کر کے نکلی تھیں کہ چند کلومیٹر کی دوری پر گرفتار کر لی گئی تھیں (اے ایف پی)آئین شکن جنرل پرویز مشرف نے اقتدار دبوچنے کے نو ماہ بعد قدرے کھُلے ڈُلے میڈیا کا اپنا تاثر ختم کر، اندھا دھند لٹھ گھمایا۔ رات گئے 160 سے زیادہ افرد گھروں سے اٹھا لیے گئے تھے۔ یہ تقریباً تمام ن لیگی تھے جن میں اراکین (معطل) قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل تھے۔
’لہور‘ کے خوشحال اور پوش علاقے میں واقع میاں صاحب کے مکان کے اطراف ڈنڈا بردار پولیس تعینات کر دی گئی تھی تاکہ بیگم صاحبہ گھر سے نہ نکلنے پائیں اور نکلیں تو دھر لی جائیں۔ لیکن وہ مبینہ منصوبہ بندی کے ساتھ نکلیں اور پھر بولی بھی تو چھپر پھاڑ کے۔
’تو بیگم صاحبہ ہوا کیا ہے اور اب کیا ہو رہا ہے؟ میں نے سوال کیا۔
’ان سے ہونا ہوانا تو کچھ نہیں ماسوا ڈرانے کے۔ میاں صاحب کی والدہ، بیٹیوں، بہو گھر کے سارے چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو نظربند کر دیا گیا ہے اور ان کے فون کاٹے جا رہے ہیں۔ یہ حرکتیں ہیں ان لوگوں کی۔‘ تفصیل سے جواب آ رہا تھا اور میں بھی تفصیلاً سننے کے موڈ میں تھا۔ ’اور پھر؟‘ میرا دو لفظی مختصر سوال تھا۔
’گھر سے نکلتے ہی انہوں (پولیس) نے ہماری گاڑی گھیرے میں لے لی، ہم نے بھی گاڑی لاک کر لی، انہوں نے لفٹر سے گاڑی اٹھوائی اور قریبی آرمی بیرکس میں لے آئے ہیں۔‘
اس دوران تالا توڑ کاریگروں نے لاک توڑنے اور چور دروازہ بنانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے تھے۔ غیریقینی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایمبولینس بلائی جا چکی تھی۔
’جاوید ہاشمی! آپ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہیں۔ اور کون کون ہے آپ لوگوں کے ساتھ اور یہ احتجاج صرف لاہور میں ہے یا کہیں اور بھی ہے؟‘ میرا خاصہ لوڈڈ سوال تھا، لیکن جاوید ہاشمی نپے تلے انداز میں بولے، ’نہیں شفیع صاحب! یہ صرف لاہور میں نہیں ہے بلکہ پشاور و بلوچستان سے بھی ہے جہاں لوگ خشک سالی کے بعد سرکاری امداد کی غیرحاضری اور عدم توجہی پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ بیگم صاحبہ کہہ چکی ہیں کہ یہ لوگ مجھے روک نہیں سکتے اور مجھے روکنے سے پہلے انہیں مجھے مارنا ہوگا۔ مشرف نے جو کچھ کیا ہے اس پر دنیا بھر کا ردعمل ہوگا اور آئے گا۔‘ جاوید ہاشمی، بین لاقوامی صورت حال پر آ گئے۔ میں انہیں پھر تازہ ترین صورت حال پر لایا۔
’تو جاوید ہاشمی صاحب! رات ہو چلی ہے، آخر کب تک آرمی بیرکس میں یوں کار میں بند بیٹھے رہیں گے؟ میں نے پھر پوچھا لیکن اس سے قبل کے جاوید جواب دیتے، بیگم صاحبہ موبائل فون سنبھال چکی تھیں اور خاصی برہمی کے ساتھ ان کا جواب تھا۔ ’یہ جہاں تک لا سکتے تھے لے آئے ہیں، ان سے جو ہوسکتا تھا انہوں نے کر لیا، ہم جہاں آ گئے ہیں وہاں سے نہیں جائیں گے، نہیں جائیں گے، مجھے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے پہلے انہیں مجھے مارنا ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
8 جولائی سن 2000 کا سیربین تو وقت ختم ہونے کے سبب اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا لیکن 9 جولائی کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے سخت الفاظ میں ’مشرف کریک ڈاؤن‘ کی مذمت کی تھی۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور نے کہا تھا کہ ’مشرف نے تہیّہ کر رکھا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے، نواز شریف اور بینظیر کو آنے نہ دیں گے لیکن مشرف کا کامیاب ہونا مشکل درمشکل نظر آتا ہے۔‘
ویسے تو مارچ میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے سے پہلے ہی عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی تھی اور مشرف صاحب اپنے اقتدار کے لیے بین الاقوامی حمایت کی تلاش میں تھے۔ وہ برطانیہ جو 6 جولائی کو پاکستان کو جدید ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دے چکا تھا، حقوق انسانی کے اسی علم بردار کے لیے ’مشرف کریک ڈاؤن‘ سبکی کا باعث بنا اور وہ مذمتی بیان اور گرفتار شدگان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوا۔
بی بی سی اردو سروس کا بیگم کلثوم نواز کے ساتھ سہ طرفہ لائیو براڈ کاسٹ والا یہ پروگرم متعدد پاکستانی اور غیرملکی اخبارات میں جلی حروف میں شائع ہوا۔
(اس پروگرام کی ریکارڈنگ موجود ہے اور مصنف کی یاد داشتوں کا حصہ ہے)