افغانستان میں امریکی فوجی اڈے پر طالبان کے حملے کے بعد افغانستان کے لیے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ ان کی ٹیم طالبان کے ساتھ مذاکرات عارضی طور پر معطل کر رہی ہے۔
واشنگٹن اور طالبان کے درمیان کئی ماہ کے تعطل کے بعد مذاکرات بحال ہوئے تھے، جس سے جنگ بندی اور افغانستان میں امن کے لیے حکمت عملی اپنانے کی امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں۔
تاہم بدھ کو بگرام میں امریکی فوجی اڈے پر خودکش حملے کے بعد بات چیت رک گئی۔ اس حملے میں دو عام شہری ہلاک جبکہ پانچ سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
خلیل زاد نے اپنے ٹویٹر پر لکھا: ’میں نے آج طالبان سے ملاقات کی اور بگرام پر حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ ہم اس حساس معاملے پر ان کے قائد سے مشاورت کے لیے مذاکرات کو روک دیتے ہیں۔‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طالبان کو امن کی افغان خواہش کا جواب دینے کے لیے اپنی رضامندی اور قابلیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
(1/2) When I met the Talibs today, I expressed outrage about yesterday’s attack on Bagram, which recklessly killed two and wounded dozens of civilians. #Taliban must show they are willing & able to respond to Afghan desire for peace.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) December 12, 2019
دوسری طرف طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعے کے اجلاس کو بہت ہی اچھا اور دوستانہ بتایا۔ الجزیرہ کے مطابق انہوں نے کہا فریقین نے چند دن کی بات چیت کے بعد مذاکرات کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سن 2008 کے بعد سے اب تک ہزاروں افغان شہری اور سکیورٹی اہلکار نیز 2000 سے زیادہ امریکی فوجی افغانستان میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
فی الحال، وہاں 5000 امریکی فوجی اور ہزاروں نیٹو فوجی ہیں۔ امریکی عہدے دار امن منصوبے کے ذریعے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن طالبان نے معاہدے تک پہنچنے کی شرط کے طور پر امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔