غزہ میں فائر بندی معاہدے کے تحت ہفتے کو قیدیوں کے تبادلے کے چھٹے مرحلے میں حماس نے تین اسرائیلیوں جبکہ اسرائیل نے تقریباً 369 فلسطینیوں کو قید سے رہا کر دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے سینکڑوں فلسطینیوں کو بسوں کے ذریعے خان یونس پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے پرجوش ہجوم کے سامنے فتح کے نشان بنائے۔
فلسطینی قیدیوں کے کلب ایڈوکیسی گروپ کے مطابق اسرائیل کو جارحیت کے دوران حراست میں لیے گئے 333 فلسطینیوں کے علاوہ عمر قید کی سزا پانے والے 36 قیدیوں کو رہا کرنا تھا، جن میں سے 24 کو فائربندی کی شرائط کے تحت ملک بدر کیا جانا تھا۔
اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ اس نے کل 369 قیدیوں کو رہا کر دیا۔
اسرائیلی میڈیا پر نشر ہونے والی تصاویر میں فلسطینی قیدیوں کو رہائی سے قبل سویٹ شرٹس پہنے ہوئے دکھایا گیا جس پر جیل سروس کا لوگو، ڈیوڈ کا ایک ستارہ اور نعرہ درج تھا: ’ہم نہیں بھولیں گے اور ہم معاف نہیں کریں گے۔‘
روئٹرز کے مطابق رہا ہونے والے ایک 70 سالہ فلسطینی نے، جو مغربی کنارے کے شہر بیت لحم سے تعلق رکھتے ہیں اور اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے جرم میں دو بار عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے، کہا ’ہمیں امید نہیں تھی کہ ہمیں آزاد کر دیا جائے گا، لیکن اللہ بڑا ہے، اللہ نے ہمیں آزادی دی۔‘
اس سے قبل ہلال احمر نے بتایا تھا کہ اسرائیلی جیل سےرہا کیے گئے فلسطینیوں میں سے چار کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ پہنچنے پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی کے مطابق فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے ایک بیان میں کہا ’ہماری ٹیمیں چار رہائی پانے والے (فلسطینی) قیدیوں کو استقبالیہ کے مقام سے ہسپتال منتقل کر رہی ہیں۔‘
آج صبح اے ایف پی کے ایک صحافی نے غزہ سے رپورٹ کیا کہ حماس کے نقاب پوش جنگجوؤں نے جنوبی شہر خان یونس میں تین اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کر دیا۔
اسرائیلی-امریکی ساگوئی ڈیکل-چن، اسرائیلی-روسی ساشا تروپانوف اور اسرائیلی-ارجنٹینی یائر ہارن کو تبادلے کے مقام پر ایک سٹیج پر لایا گیا اور انہیں ریڈ کراس کے حوالے کیے جانے سے قبل ہجوم سے خطاب کرنے کو کہا گیا۔
اس سے قبل خان یونس میں حماس کے کارکن، عہدے دار اور مقامی لوگوں کو تین یرغمالیوں کی متوقع رہائی سے قبل جمع ہوتے دیکھا گیا۔
معاہدے کے خاتمے کے دہانے پر پہنچنے کے بعد حماس کے ایک اہلکار نے جمعے کو کہا کہ گروپ کو توقع ہے کہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت اگلے ہفتے کے اوائل میں شروع ہو جائے گی۔
بات چیت سے واقف ایک اور ذریعہ نے اسی طرح کی ٹائم لائن دی۔ دوسرے مرحلے پر مذاکرات کا مقصد لڑائی کے مستقل خاتمے کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ کے سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو، جن کا ملک اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی اور فائر بندی کے ثالثوں میں سے ایک ہے، وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ فائر بندی پر متوقع بات چیت سے قبل ہفتے کے آخر میں اسرائیل پہنچنے والے ہیں۔
حماس نے اس سے قبل اسرائیل پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید قیدیوں کو رہا نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
حماس نے فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے اور امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں ہفتے کو اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا تھا۔
فائر بندی کے معاہدے کے تحت رفح کراسنگ کو زخمیوں اور بیماروں کے انخلا کے لیے کھولا جانا تھا، جس کی اسرائیل خلاف ورزی کر رہا تھا۔
گذشتہ روز اسرائیل نے حماس کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے غزہ میں بلڈوزر، تعمیراتی گاڑیاں اور عارضی گھروں سے لدے ٹرکوں کو رفح کراسنگ سے غزہ میں داخلے کی اجازت دے دی، جس کے بعد حماس کی جانب سے آئندہ رہا کیے جانے والے قیدیوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
19 جنوری کو طے پانے والے فائر بندی معاہدے کے تحت اب تک اسرائیل اور حماس کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے پانچ مراحل ہو چکے ہیں۔
یہ فائر بندی معاہدہ اس وقت سے شدید دباؤ کا شکار ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں امریکہ کی جانب سے غزہ پر کنٹرول سنبھالنے اور وہاں کی 20 لاکھ سے زائد آبادی کو مصر یا اردن منتقل کرنے کی تجویز شامل ہے۔
عرب ممالک نے اس منصوبے کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔
سعودی عرب 20 فروری کو مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کی میزبانی کرے گا تاکہ اس معاملے پر ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا جا سکے۔
فائر بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی آزادی نے جنگ کے دونوں فریقوں کے خاندانوں کو کسی حد تک سکون فراہم کیا ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے، جو ان تبادلوں میں ثالثی کر رہا ہے، جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ’رہائی کا تازہ ترین عمل اس بات کی فوری ضرورت کو مزید تقویت دیتا ہے کہ آئی سی آر سی کو قیدیوں تک رسائی دی جائے۔‘