امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے انڈین نژاد پال کپور کو معاون وزیر خارجہ نامزد کیا ہے، جنہیں عمومی طور پر ’پاکستان مخالف‘ سمجھا جاتا ہے۔
اپنی تحاریر کی وجہ سے پال کپور پاکستان کے لیے سخت موقف رکھنے والے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی تعیناتی کے بعد مختلف حلقوں میں پاکستان اور امریکہ مستقبل کے تعلقات پر مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پال کپور ہیں کون اور ان کو ہی اس منصب کے لیے کیوں چنا گیا؟
ایس پال کپورکی پیدائش امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہوئی۔ وہ امریکی بحریہ کے پوسٹ گریجویشن سکول میں نیشنل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ سٹین فورڈ یونیورسٹی کے ہوور انسٹی ٹیوٹ میں ویزٹنگ فیلو بھی رہے ہیں۔
وہ جنوبی ایشیا کی سیاست اور سکیورٹی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اسی شعبے میں انہوں نے زیادہ کام کیا ہے۔ انٹرنیشل سکیورٹی اور سکیورٹی سٹڈیز جرنلزمیں ان کی تحاریر بھی شائع ہوئی ہیں۔
وہ مختلف کتابوں کے بھی مصنف ہیں جس میں ’انڈیا پاکستان اور بم۔ جہاد ایز گرینڈ سٹرٹیجی، اسلامی عسکریت پسندی‘، انڈیا پاکستان کے ایٹمی پاور ہونے کے تناظر میں لکھی گئی کتاب ’ڈینجرس ڈیٹیرنٹ‘، نیشنل سکیورٹی اور پاکستانی سٹیٹ شامل ہیں۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی مارتھا کرنشا نے ان کی 2016 میں شائع کتاب ’جہاد ایز گرینڈ سٹرٹیجی‘ پر تبصرے میں لکھا کہ ’پال کپور پرتشدد جہادی عسکریت پسندوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں دوٹوک، باخبر اور مایوس کن تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
’ان کا کہنا ہے کہ پرتشدد غیر ریاستی عناصر کی حمایت پاکستان کی دیرینہ عظیم حکمت عملی کا مرکزی جزو ہے جو کارآمد ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ان کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی عسکریت پسندانہ حکمت عملی ترک نہ کی گئی تو تباہی کا خطرہ ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے دفتر خارجہ کے سفارتی حکام سے جب پال کپور کی نامزدگی اور ممکنہ تعیناتی کے حوالے سے استفسار کیا تو ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ’ان کی نامزدگی امریکہ کا اختیار ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں جسے مرضی ہو شامل کریں، جیسے پاکستان اپنی کابینہ اپنی مرضی سے تعینات کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پال کپور کے کچھ مضامین پڑھے ہیں جو انہوں نے سکیورٹی جنرلز کے لیے لکھے ہیں۔
’پال کپور کے مضامین اور کتابوں میں بارہا یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ جہاد اور اسلامی عسکریت پسندی پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے۔ انہوں نے اسلامی عسکریت پسندی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔‘
پال کپور نے 'جہاد ایز گرینڈ سٹریٹجی' میں لکھا کہ شدت پسندی کے استعمال سے پاکستانی مفادات کو نمایاں طور پر نقصان پہنچتا ہے۔ ’لہٰذا ماضی کے فوائد کے باوجود یہ حکمت عملی اپنی افادیت کھو چکی ہے اور پاکستان کو تباہی سے بچنے کے لیے اسے ترک کرنا پڑے گا۔‘
ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو نہ صرف پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی بلکہ پاکستانی ریاست کے مکمل تصور کی بھی ضرورت ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ ’ایک فرد کی تعیناتی سے خارجہ پالیسی پر اتنا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ معاون وزیر خارجہ ہوں گے اس لیے ان کا کردار محدود ہو گا۔ یہ اہم ہو گا کہ وزیر خارجہ کون ہو گا۔ یقیناً پال کپور اثر انداز ہونے کی کوشش تو کریں گے۔
’کیونکہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت الفاظ کہے ہوئے ہیں لیکن وہ تب کہے تھے جب وہ حکومت میں نہیں تھے۔ اب حکومت میں آ کر انہیں حکومتی پالیسی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ وہ تھوڑی بہت مداخلت تو کر سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ حکومتی پالیسی کے بغیر بڑی سٹریٹیجک تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔‘
سابق سفیر و سابق نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ’ان کی تحریروں میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان میں سے کچھ یقیناً پاکستان میں تشویش کا باعث ہوں گے۔ تاہم، جنوبی ایشیا کے لیے ریاست کے معاون کے طور پر ایک اہم عہدہ تفویض کیے جانے کے بعد، کوئی بھی مسٹر کپور سے جنوبی ایشیا سے متعلق معاملات پر متوازن موقف اختیار کرنے کی توقع کرے گا۔
’مجھے یقین ہے کہ وہ چیزوں کو تنگ نظر سے دیکھنے کی بجائے تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعمیری انداز میں بات چیت کریں گے۔‘
پال کپور پاکستان کے جوہری پروگرام پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور2007 میں انہوں نے اسی موضوع ’انڈیا، پاکستان اینڈ دی بم‘ بھی تحریر کی۔ اس کتاب میں ان کا اصرار ہے کہ جوہری ہتھیار جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت رہے ہیں اور اسی طرح دنیا کے دیگر حصوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ پال کپور کا نکتہ نظر پاکستان مخالف اور انڈیا کی حمایت کا ہے جس سے ان کا جھکاؤ پہلے سے ہی واضح ہے۔
’اس نامزدگی سے یہ بھی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ امریکہ ایشیا پیسفیک کو انڈیا کے لینز سے دیکھنا چاہتا ہے۔ انڈین لابی ٹرمپ انتظامیہ کے اندر بڑی تعداد میں موجود ہے جو اہم تعیناتیوں پر نامزد ہونے پر کامیاب ہو رہے ہیں۔
’امید یہ ہے امریکی انتظامیہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کوئی فیصلے نہیں کرے گی، دونوں ممالک کے مابین تعلقات اچھے ہیں اور اس میں کوئی تنزلی کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔‘
پال کپور کی نامزدگی ایسے اہم موقع پر میڈیا میں لیک ہوئی جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن کے دورے پر تھے۔
بعض تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایس پال کپور کی نامزدگی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں ممکنہ طور پر سختی کی نشاندہی کرسکتی ہے۔
اگر سینیٹ کی جانب سے اس کی توثیق ہو جاتی ہے تو پال کپور، ڈونلڈ لو کی جگہ لیں گے جو انتظامیہ میں تبدیلی کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔