چین اور پاکستان کی انڈیا کو سٹیلتھ فائٹرز فروخت کرنے کے امریکی منصوبے پر تنقید

چین کا کہنا ہے کہ ایشیا پیسیفک خطہ ’جیو پولیٹیکل چالوں کی بساط‘ نہیں ہے۔

آسٹریلیا کی فضائیہ کا ایک ایف 35 لڑاکا طیارہ 20 ستمبر 2024 کو انڈونیشیا کے ریزورٹ جزیرے بالی پر انٹرنیشنل ایئر شو کے دوران اڑان بھرنے کی تیاری کر رہا ہے (اے ایف پی)

چین اور پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز پر تنقید کی ہے جس میں انہوں نے امریکہ کے جدید ترین ایف 35 سٹیلتھ فائٹر طیارے ہمسایہ ملک انڈیا کو فروخت کرنے کی بات کی۔ یہ تجویز گذشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر کی انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران سامنے آئی۔

ٹرمپ کا انڈیا پر دباؤ ہے کہ وہ فوجی ساز و سامان کی خریداری میں اربوں ڈالر کا اضافہ کر کے ففتھ جنریشن کے جدید ترین لڑاکا طیارے خریدے جس سے جنوبی ایشیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان اور چین نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔

انڈیا جو فوجی ساز و سامان درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، ملک کے جنگی فضائی بیڑے کو مضبوط بنانے کے لیے اہم اقدام کرتے ہوئے مبینہ طور پر اس سال 114 ملٹی رول لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے بولیاں طلب کر رہا ہے جو کہ بظاہر چین کی بڑھتی ہوئی فضائی طاقت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

ٹرمپ نے مودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اس سال سے ہم انڈیا کو اربوں ڈالر کے فوجی ساز و سامان کی فروخت میں اضافہ کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم انڈیا کو بالآخر ایف 35 سٹیلتھ فائٹرز فراہم کرنے کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔‘

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے بعد میں وضاحت کی کہ ایف 35 کا معاہدہ محض ایک تجویز ہے اور اس پر کوئی باضابطہ کارروائی شروع نہیں ہوئی کیوں کہ امریکہ یہ طیارے صرف نیٹو ممالک اور اپنے اتحادیوں کو فروخت کرتا ہے۔

تاہم یہ تجویز ہی پاکستان کو ناراض کرنے کے لیے کافی تھی جس کے پاس پہلے سے ہی متعدد ایف 16 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ قوم کو ’انڈیا کو اس طرح کی جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منصوبہ بند منتقلی پر گہری تشویش ہے۔‘

وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ یہ منتقلی ’خطے میں فوجی عدم توازن کو مزید بڑھا دے گا اور تزویراتی استحکام کو نقصان پہنچائے گا۔

’ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے مسائل کو وسیع اور غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھیں اور ایسی پالیسیوں کی حمایت نہ کریں جو یکطرفہ ہوں اور زمینی حقائق سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔‘

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاؤکن نے کہا کہ ایشیا بحرالکاہل کا خطہ ’جغرافیائی سیاست کے لیے شطرنج‘ کا کوئی میدان نہیں۔

’مخصوص دائرہ بنانا اور گروہی سیاست میں ملوث ہونا نہ تو سلامتی لائے گا اور نہ ہی استحکام بلکہ یہ خطے اور پوری دنیا کے امن و استحکام کو نقصان پہنچائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف 35 طیارے بنانے والے امریکی دفاعی ادارے لاک ہیڈ مارٹن  کا کہنا تھا کہ ’ہم صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان سے حوصلہ افزائی محسوس کر رہے ہیں جس میں انڈیا کو ایف 35 فراہم کرنے کی بات کی گئی۔‘

امریکہ میں فوجی ساز و سامان کی غیر ملکی فروخت کو حکومت سے حکومت کا سودا سمجھا جاتا ہے جن میں امریکی محکمہ دفاع خریدار حکومت اور دفاعی ٹھیکے دار کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔

لاک ہیڈ مارٹن کے ترجمان کے مطابق: ’ہم آنے والی سٹریٹیجک خریداریوں پر دونوں حکومتوں کے ساتھ قریبی تعاون کے منتظر ہیں۔‘

اگر انڈیا کو ایف 35 لڑاکا طیارے مل گئے تو یہ نئی دہلی کی بڑی کامیابی ہوگی۔ لیکن اس کا فائدہ واشنگٹن کو بھی ہوگا جو انڈیا کو مشرق میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں توازن کے طور پر دیکھتا ہے۔

انڈیا اور چین کے درمیان 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو مغرب میں لداخ سے لے کر مشرق میں اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات جولائی 2020 میں اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے، جب لداخ کی وادی گلوان میں خونریز جھڑپ میں کم از کم 20 انڈین فوجی اور چار چینی فوجی جان سے گئے۔ یہ گذشتہ 45 سال میں ہونے والی سب سے بڑی لڑائیوں میں سے ایک تھی۔

چین نے گذشتہ سال دسمبر میں بغیر دم والے بظاہر چھٹی جنریشن کے جدید ترین سٹیلتھ فوجی طیارے کا تجربہ کیا۔ یہ طیارے چین کے شہر شینگدو کے اوپر پرواز کرتے دیکھے گئے۔

انڈیا میں سرکاری مالی معاونت سے چلنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے دفاعی ماہر لکشمن بہیرا کہتے ہیں کہ ’چین جدید جنگی طیارے (فضائیہ میں) شامل کر رہا ہے اور پاکستان کو بھی چین کی جانب سے کچھ معاونت حاصل ہو رہی ہے جب کہ انڈین فضائیہ کے پاس جنگی سکواڈرن کی کمی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔‘

انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور صورت حال پر نظر رکھنی ہوگی۔‘

انڈین فضائیہ کے پاس فی الحال کوئی امریکی جنگی طیارہ فعال بیڑے میں شامل نہیں تاہم تقریباً 50 انڈین طیارے جنرل الیکٹرک کے انجنوں سے چل رہے ہیں اور مزید 170 طیارے آرڈر پر ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں مشترکہ بیان کے دوران مودی اور ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اس سال کے آخر تک امریکہ اور انڈیا کے درمیان بڑی دفاعی شراکت داری کے لیے 10 سالہ نئے معاہدے پر دسخط کیے جائیں گے۔

انڈیا میں موجود آزاد دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایف 35 لڑاکا طیاروں کے سودے سے 100 طیاروں کی فوری ضرورت پوری نہیں ہو گی۔

انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’وہ (ایف 35 طیارے) کل ہی نہیں ملنے والے۔ ان کی آمد میں کئی سال لگیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا