سندھ کے شہر سامارو کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں کی رہائشی سیتا بھیل کے ایک رشتےدار نے جب انٹرنیٹ پر بھارت سے آنے والی خبروں کے بارے میں بتایا تو ان کا سارا خاندان بےچین ہو گیا۔ رشتےدار نے بتایا کہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع بیکانیر کی ظلعی انتظامیہ نے کشمیر کے شہر پلوامہ میں حملے کے بعد پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ضلع خالی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
سیتا بھیل کے چچازاد بھائی اور ماموں کے خاندان مقامی مسلمان زمیندار کا زرعی قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے ڈر کر 2013 میں بھارت گئے اور واپس نہیں آئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بیکانیر ضلع کے ایک مہاجر کیمپ میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ ان کو اب تک شہریت نہیں مل سکی، مگر وہ بھارت سرکار کے پاس پناہ گزین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
’انٹرنیٹ پر خبریں پڑھنے کے بعد ہم نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر رابطہ نہ ہو پایا ، پتہ نہیں اب وہ کس حال میں ہیں،‘ بھیل نے انڈپینڈینٹ اردو کو ٹیلیفون پر بتایا۔
پچھلے ہفتے جموں کشمیر کے شہر پلوامہ میں ایک کار بم حملے میں سینٹرل ریزرو پولیس کے 40 کے قریب جوان مارے گئے، جس کے بعد بیکانیر ضلعے کے کلیکٹر کمار پال گوتم کی دستخط سے ایک نوٹیفکیشن کے تحت ضلعے میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کو بھارتی قانون کے قلم 144 سی آر پی سی کے تحت 48 گھنٹوں میں ضلع چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
انڈپینڈینٹ اردو کو ہندی زبان میں ملے نوٹیفکیشن میں بیکانیرضلعی انتظامیہ نے ضلعے کے تمام ہوٹل مالکان کو پابند کیا ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کو نہ ٹھہرائیں۔ اس کے علاوہ بیکانیر میں پاکستان میں رجسٹرڈ فون سمز کے استعمال پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
بعد میں انڈپینڈینٹ اردو سے وٹس اپ پر بات کرتے بیکانیر ضلع کے کلیکٹر کمار پال گوتم نے کہا کہ نوٹیفیکیشن ان پاکستانی ہندو پناہ گزینوں پر نافذ نہیں ہو گا جو پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں یا جو فارن رجسٹریشن آفیسر کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں گوتم نے بتایا کہ بیکانیر ضلع مذہبی طور پر حساس مانا جاتا ہے اور یہاں ماضی میں مسلمانوں پر حملے ہو چکے ہیں۔
گوتم نے بتایا: ’ہم نے کسی امکانی حملے کے ڈر سے پاکستانی شہریوں کو ضلع چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں کہ بیکانیرضلع میں کتنے پاکستانی تارکیں وطن آباد ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 60 لاکھ کے قریب ہندو بستے ہیں، جن میں اکثریت سندھ میں آباد ہے۔ ماضی میں شمالی سندھ میں مبینہ طور پر زبردستی مذہب کی تبدیلی اور نوجوان لڑکیوں کے اغوا کی وارداتوں کے کچھ شاہوکار ہندو خاندانوں کی جانب سے بھارت جانے کی خبریں رپورٹ ہوئیں۔ زیریں یا جنوبی سندھ، جہاں پاکستانی ہندوں کی اکثریت آباد ہے جو کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔
ماضی میں شمالی سندھ کے ہندوؤں کی بھارت ہجرت کرنے کی کم ہی خبریں آتی تھیں، مگر چند سالوں میں زیریں سندھ سے بھی ہندو خاندانوں کی بھارت جانی کی خبریں تواتر سے آنے لگی ہیں، مگر سرکاری طور پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ اب تک کتنے پاکستانی ہندو مستقل طور پر بھارت منتقل ہوچکے ہیں۔
میرپور خاص کے ایک سماجی کارکن ارجن باگڑی نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے چند سالوں میں باگڑی برادری کے پانچ سو خاندان بھارت منتقل ہوئے، مگر ان میں اکثریت واپس آ گئی۔ انہوں نے کہا: ’جنوبی سندھ میں وڈیرے یا زمین کے مالک مسلمان ہیں، جب کہ ہاری ہندو ہے، وڈیرے اور ہاری کے درمیاں رشتے کے بارے میں موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہندو خاندان پریشان ہیں، اسی وجہ سے کچھ خاندان بھارت ہجرت کر گئے، مگر ثقافت اور زبان کے فرق کی وجہ سے وہ وہاں رہ نہیں سکے اور واپس آ گئے۔‘