خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں لیویز ایکٹ فورس 2019 کے تحت لیویز فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ان علاقوں میں خاصہ داری کا نظام تھا۔ جو نئے زمانے اور ضروریات کے مطابق نہیں تھا۔ ان علاقوں میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کی جگہ فی الحال لیویز فورس کو لایا جا رہا ہے۔
خاصہ دار نظام کب نافذ ہوا، اور اس کے اصول کیا رہے ہیں؟
برطانیہ کے دورِحکومت سے فاٹا میں خاصہ دار ہوا کرتے تھے ۔ یہ مسلح گروہ اپنے اپنے قبائیلی شاخوں سے ملِک کی رضامندگی پر ’نامزد ‘ ہوتے تھے۔ ان کے ہتھیار اور پوشاک ان کی اپنی ذاتی ذمہ داری رہی ہے۔ اور تنخواہ ان کو حاکمِ وقت یعنی پولیٹیکل ایجنٹ سے ملتی تھی۔
چونکہ ان کا پوشاک ’خاصہ‘ کپڑے سے بنا ہوتا ہے، جس کو پشتو میں ملیشا بھی بولتے ہیں، اسی لیے ان لوگوں کا نام بھی خاصہ دار پڑ گیا۔
خاصہ دار کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی شرط نہیں تھی ۔ ان کو کوئی تربیت بھی نہیں ملتی تھی۔ یہ نظام پدرانہ وراثت پر موقوف تھا۔ لہٰذا صاحبِ منصب کے وفات پا جانے پر اس کا بیٹا اسی منصب پر فائز ہو جاتا تھا۔
اس نظام کی ایک خرابی یہ رہی ہے کہ جو خاصہ دار اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے تھے، ان کو بھی باقاعدگی سے تنخواہ و واجبات ملتے تھے۔ ان میں بہت سے لوگ باہر ملکوں میں نوکریاں کر رہے ہیں لیکن ان کے گھر والے ان کے نام پر تنخواہ اب بھی وصول کر رہے ہیں۔ جو اہلکار فوت ہو گئے ہیں ان کی تنخواہیں بھی بدستور ان کے گھر والوں کو مل رہی ہیں۔۔ اس وقت تمام اضلاع میں 15673 خاصہ دار کام کر رہے ہیں۔
کالعدم فاٹا سیکرٹریٹ نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ خاصہ داروں کو’’گولڈن ہینڈ شیک‘‘ دے کر نئے نظام میں نئی بھرتیاں کرا ئے۔
خاصہ دار کرتے کیا تھے؟
خاصہ دار فاٹا میں تمام اہم سرکاری شاہراہوں پر حکومت کی رٹ قائم رکھتے تھے، چوکیوں کی حفاظت کرتے تھے۔ مہمان خصوصی کی آمد پر ان کا استقبال کرتے تھے۔ ان کی حفاظت کی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے۔ اور فاٹا کے اندر پولیٹیکل ایجنٹ کے حکم پر مطلوب اشخاص کی پیشی یا سزا کو یقینی بناتے تھے۔ خاصہ دار وں کا سربراہ لائن افسر ہوتا تھا، جو کہ ایک نان کمیشنڈ افسر کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
اس کا اپنا دفتر ہوتا تھا۔ جس میں ڈیوٹی پر معمور خاصہ داروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ خاصہ دار کا اپنا الگ کوئی دفتر نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بورڈنگ لاجنگ گھر سے ہی ہوتی تھی۔
پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر لائن افسر اور لائن افسر خاصہ داروں کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ خاصہ دار لائن افسر کو جوادبدہ تھے، لائن افسر پولیٹیکل ایجنٹ کو اور موخرالذکر گورنر کو جوابدہ ہوتا تھا۔
ضرورت کے پیش نظر یعنی لائن افسر کے حکم پر خاصہ دار کی ڈیوٹی لگا دی جاتی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں گھر کا کوئی دوسرا فرد آ جاتا تھا۔ خاصہ دار خود سے نہ تو کسی کو گرفتار کر سکتا تھا، اور نہ کوئی سزا دینے کا اختیار مند تھا۔
لیویز نظام کب نافذ ہوا؟
خاصہ دار کے برعکس لیویز اہلکاروں کو میرٹ پر منتحب کیا جاتا ہے۔ اس وقت تمام قبائلی اضلاع میں 10 ہزار لیویز فورس موجود ہے، جس میں اب مزید بھرتیاں کر کے خاصہ داری نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔
لیویز کا آغاز بھی ایک صدی قبل برطانوی دورِ حکومت میں سوات، ملاکنڈ، دیر اور بلوچستان سے ہوا۔ یہ علاقے بھی اس زمانے میں قبائلی علاقہ جات میں شمار ہوتے تھے۔ موجودہ قبائلی علاقہ جات جو اب ضم شدہ اضلاع کہلائے جاتے ہیں۔
یہاں پر لیویر فورس کا آغاز تب عمل میں لایا گیا جب یہ علاقے دہشت گردی کی گرفت میں آئے۔ انتظامیہ کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ نیم پختہ خاصہ دار فورس نہ تو اپنے قبیلے کا انتظام و انصرام سنبھال سکتی ہے، نہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی مدد کر سکتی ہے۔
یہیں سے اس سوچ نے جنم لیا کہ دوران دہشت گردی قبائلیوں کی طرف سے بھی ایک ایسی منظم فورس پیدا ہو جو اپنے علاقے کی جغرافیائی پہچان، قبائلیت کے اصول اور پاکستان کی قومیت کی بقا سے بخوبی واقف ہو۔ لہٰذا لیویز فورس کو عمل میں لایا گیا۔ جو آج کل بشمول خاصہ داروں کے فرنٹیئر کانسٹیبلری، فرنٹیئر کور اور پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔
ان کی وردی اور ہتھیار حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ہوتا ہے۔ خاصہ داروں کے برعکس یہ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔اس کو پیرا ملٹری فورس کہا جاتا ہے اور ان کو باقاعدہ تربیت بھی ملتی رہتی ہے۔ ان کی تنخواہیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ لیویز اہلکار زیادہ تر نوجوان اور جسمانی طور پر موزوں رہتے ہیں۔
ان کی ذمہ داریاں یہ ہیں:
سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر حفاظتی ڈیوٹی سر انجام دینا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے حکم پر گھروں پر چھاپے مارنا، سمگلنگ اور تخریب کاری کی روک تھام میں فوج کی مدد کرنا۔
ضم شدہ اضلاع کے نئے نظام میں خاصہ داری کا نظام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، البتہ ان خاصہ داروں میں جو لوگ لیویز میں بھرتی ہونے کے اہل ہوں گے ان کو میرٹ پر لیا جائے گا۔ نئے نظام میں یہ فورس ’لیویز فورس‘ ہی کہلائی جائے گی اور ان کی ذمہ داریاں بھی تب تک نہیں بدلیں گی جب تک وہاں پر مکمل عدالتی نظام اور تھانوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔