کیا انڈیا میں کامیڈی کی نگرانی حد سے آگے بڑھ چکی ہے؟

ایک سٹینڈ اپ کامیڈین کے سیاسی رہنما کے بارے میں مذاق کرنے پر اس سیاسی جماعت کے کارکنوں کا پرفارمنگ آرٹس وینیو کو نقصان پہنچانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا میں کامیڈی پر قدغنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمنٹ جیا بچن نے انڈیا میں اظہارِ رائے پر بڑھتی ہوئی پابندیوں پر سوال اٹھایا (کنال کامرا، رنویر الہ بادیہ، سمے رائنا/ انسٹاگرام)

اتوار کو، انڈیا کے شہر ممبئی میں درجنوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ’دی ہیبی ٹیٹ‘ نامی مشہور مقام پر دھاوا بولا، جہاں موسیقی، شاعری اور کامیڈی شو کی میزبانی کی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک شو بند کروا دیا، حاضرین کو باہر نکال دیا، املاک کو نقصان پہنچایا، اور مبینہ طور پر عملے کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔

اس کارروائی کی وجہ یہ تھی کہ مزاح نگار کنال کامرا نے حال ہی میں ’دی ہیبی ٹیٹ‘ میں کیے گئے اپنے ایک سٹینڈ اپ سیٹ کی ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جو تقریباً ایک ماہ پرانی تھی۔

اس میں انہوں نے شیو سینا پارٹی کے ایک دھڑے کے علاقائی رہنما اور مہاراشٹرا کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو ’غدار‘ کہا، جو ممکنہ طور پر ان کی 2022 میں پارٹی توڑ کر نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اتحاد کرنے کی طرف اشارہ تھا۔

پولیس نے فوری طور پر ایک مقدمہ درج کیا، لیکن ان افراد کے خلاف نہیں جنہوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ مقدمہ کامرا کے خلاف درج کیا گیا، شیو سینا کے رکن مرجی پٹیل کی شکایت پر۔

پٹیل کی شکایت پارٹی کے دیگر ارکان کی متعدد شکایات میں سے ایک تھی، جن میں سے ایک میں تو یہاں تک کہا گیا تھا کہ انڈیا کے قائد حزبِ اختلاف راہل گاندھی بھی ’پہلے سے طے شدہ مجرمانہ سازش اور نائب وزیر اعلیٰ کی ساکھ، تشخص اور نیک نامی کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم‘ میں ملوث ہیں۔

پولیس نے پیر کو صرف ان شیو سینا کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انہیں گرفتار کیا جنہوں نے مقام پر توڑ پھوڑ کی تھی۔

یہ واقعہ انڈیا میں مزاح نگاروں کے خلاف جاری کارروائیوں کی تازہ مثال ہے، جس میں بظاہر مزاح اور طنز کے ذریعے ’جرم‘ کرنے والوں کو سزا دی جا رہی ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ آزادی اظہارِ رائے پر اس وقت حملہ ہے جب یہ طاقت ور اکثریتی گروہوں کی اخلاقی اقدار سے میل نہ کھاتی ہو۔

یہ واقعہ بمشکل ایک مہینے بعد پیش آیا جب دو نوجوان مزاح نگاروں نے وہ سبق سیکھا جو ان سے پہلے کئی سیکھ چکے تھے — کہ ان کا مزاح ان کے مداحوں کے لیے ’ایڈجی‘ (جذباتی حد سے قریب) ہو سکتا ہے، لیکن ایسے ماحول میں وہ زیادہ دیر بچ نہیں سکتے جہاں مذاق پر کڑی نگرانی ہو، اور عوامی غصہ نتائج کا تعین کرے۔

سمے رائنا نے 2022 میں ایکس پر پوسٹ کیا: ’بائیں بازو کی طرف سے منسوخی کے خوف کی وجہ سے ہمارے پاس انڈین کامیڈی سین میں اینڈریو شولٹز، جمی کار، ڈیو چیپل، رکی جرویس جیسے مزاح نگار نہیں ہیں۔ فکر نہ کرو، میں یہ بدلنے آیا ہوں۔‘

کہا جا سکتا ہے کہ رائنا نے اس چیلنج پر پورا اترنے کی پوری کوشش کی۔

کار کے شوز گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی پر لطیفوں سے بھرے ہوتے ہیں اور وہ ہولوکاسٹ میں ہزاروں خانہ بدوشوں کے قتل کو ایک ’مثبت‘ پہلو قرار دے چکے ہیں۔

چیپل اور جرویس نے گذشتہ چند برسوں میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی پر لطیفے بنانے میں خاصی تخلیقی توانائی صرف کی ہے، اور تنقید ہونے پر اپنے مؤقف پر قائم رہے ہیں۔
رائنا نے 2017 میں کامیڈی مقابلہ ٹی وی سیریز ’کامیِکستان‘ جیتنے کے بعد اپنے ہیروز کی نقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

انہیں اسقاط حمل اور جنسی تشدد سے متعلق لطیفے بنانے پر کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کا یوٹیوب شو ’انڈیاز گاٹ لیٹنٹ‘ اکثر ایسے مزاح نگاروں کو مدعو کرتا تھا جو خواتین کے خلاف ہتک آمیز تبصرے کرتے تھے۔

اس شو کا نام مقبول ریئلٹی ٹی وی سیریز ’انڈیاز گاٹ ٹیلنٹ‘ پر طنز تھا اور اس کی ترتیب امریکی کامیڈی شو ’کل ٹونی‘ کی طرز پر تھی۔ اس میں ہر قسط میں مختلف مشہور ججز ہوتے تھے جبکہ رائنا اس کا مستقل چہرہ تھے۔

اگرچہ اس شو پر تنقید بھی ہوئی، لیکن ’انڈیاز گاٹ لیٹنٹ‘ کے بہت زیادہ مداح تھے۔ اس کی اقساط کو اپ لوڈ ہوتے ہی لاکھوں بار دیکھا جاتا تھا۔ رائنا کے اہم برانڈز کے ساتھ معاہدے، ایک ممبرز اونلی ویب سائٹ، جہاں وہ ماہانہ فیس کے عوض خصوصی مواد فراہم کرتے تھے، اور باقاعدہ کامیڈی شوز کی فروخت نے ان کی مقبولیت اور منافع بخش حیثیت کو مستحکم کیا۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Samay Raina (@maisamayhoon)

رائنا کے لیے یہ سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا – یہاں تک کہ یہ نہیں رہا۔

شو کے انداز اور ’فحش مزاح‘ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، پوڈ کاسٹر رنویر الہ بادیہ کا ایک کلپ نشر ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ قسط ابتدائی طور پر مداحوں کے حلقے سے باہر زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکی، لیکن پھر بدقسمتی سے کنال کامرا کی طرح ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، اور اس سوال پر شدید عوامی غصے نے جنم لیا۔

پہلے انٹرنیٹ پر تنقید ہوئی۔ صحافی اور نغمہ نگار نیلش مشرا نے شو کے ’بے ہودہ تخلیق کاروں‘ پر تنقید کی کہ انہیں ’ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں‘ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ناظرین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ایسے مواد کو سراہتے ہیں۔
پھر — جب سوشل میڈیا پر ناراضی اکثر وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے — اس بار مختلف کام ہوا، ممبئی اور شمال مشرقی شہر گوہاٹی میں ’انڈیاز گاٹ لیٹنٹ‘، الہ بادیہ، رائنا اور دیگر تمام ججز کے خلاف مبینہ فحاشی پھیلانے کے الزامات میں پولیس شکایات درج ہو گئیں۔

پولیس اور سیاست دان بھی شامل ہو گئے۔ مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے کہا کہ معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، ممبئی پولیس اسی ہفتے الہ بادیہ کے گھر گئی ، ایک وفاقی قانون ساز نے کہا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گی، اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن انڈیا کے ایک رکن کی درخواست پر یوٹیوب سے قسط ہٹا دی گئی۔

الہ بادیہ نے دو بار معافی مانگی۔ انہوں نے بتایا کہ ان اور ان کے خاندان کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لیکن عدالتوں نے انہیں گرفتاری سے تحفظ دیتے ہوئے یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنا پاسپورٹ جمع کرائیں، اور تا حکم ثانی تک کسی شو میں شرکت نہ کریں یا کوئی شو نشر نہ کریں۔

سپریم کورٹ کے جج سوریہ کانت نے اللہبادیہ کے مقدمے کی سماعت کے دوران سوال کیا: ’اس شخص کے ذہن میں کچھ بہت گندا ہے، جو اس نے اس پروگرام میں الٹی کیا۔ عدالتیں اس کا ساتھ کیوں دیں؟‘

الہ بادیہ کے وکیل، ابھینو چندچوڈ نے جواب دیا کہ اگرچہ وہ ذاتی طور پر ان تبصروں سے ’نفرت کرتے ہیں‘ اور ’اخلاقی بنیادوں پر ان کا دفاع نہیں کر سکتے‘، لیکن یہ سوال کہ آیا یہ جرم کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں، بالکل الگ معاملہ ہے۔

یہ ایک ایسا سوال ہے جو بہت سے لوگ اٹھا رہے ہیں۔

 

انڈین کامیڈین ڈینیئل فرنانڈیز نے دی انڈیپنڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سیاست دان نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں جو تشدد اور ہلاکتوں کا باعث بنتی ہیں، اور ان کا کبھی محاسبہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہوا آلودہ ہے، لوگ بھگدڑ میں مر رہے ہیں، خواتین کے ریپ اور قتل ہو رہے ہیں، غریب طبقہ تیزی سے غریب سے غریب تر ہو رہا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک یوٹیوبر نے ایک ریئلٹی شو میں کیا سوال پوچھا؟ ہماری ترجیحات کہاں ہیں؟‘

ایک اور کامیڈین، رادھیکا واز، کہتی ہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے معاملے میں کوئی واضح حد نہیں کھینچی جا سکتی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں اظہارِ رائے کی آزادی کے معاملے میں ایک سخت گیر موقف رکھتی ہوں، اور میرے لیے اس کی حد مقرر کرنا بہت مشکل ہے۔ اوہ، فلاں آدمی جنس پرست ہے، تو اسے خاموش کروا دینا چاہیے۔ وہ عورت ہے، تو اُسے نہیں چپ کروانا چاہیے۔ لیکن وہ ذات پات پر یقین رکھتی ہے، تو اب ہمیں اسے بھی چپ کروانا پڑے گا — تو پھر لکیر کہاں کھینچی جائے؟

’اظہارِ رائے کی آزادی مقدس ہونی چاہیے۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ فن اور اصل انصاف پنپے، تو لوگوں کو چیزیں کہنے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمنٹ جیا بچن نے بھی اظہارِ رائے پر بڑھتی ہوئی پابندیوں پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے پیر کو اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر بولنے پر پابندی ہے تو آپ کا کیا بنے گا؟ آپ ویسے بھی مشکل میں ہیں۔ آپ پر پابندیاں ہیں۔ آپ سے کہا جائے گا کہ صرف مخصوص موضوعات پر بات کریں اور کچھ سوالات نہ پوچھیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کہاں گئی؟‘

اگرچہ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ ایک سوال، چاہے وہ اشتعال انگیز ہی کیوں نہ ہو، کسی کو جیل تک لے جا سکتا ہے، مگر انڈین کامیڈینز کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔

2015 میں کامیڈی گروپ AIB کے خلاف پولیس شکایت درج کی گئی تھی، ساتھ ہی بالی ووڈ اداکار رنویر سنگھ، ارجن کپور، دپیکا پڈوکون اور عالیہ بھٹ کے خلاف بھی، کیونکہ وہ یا تو ایک کامیڈی پروگرام میں شریک یا موجود تھے، جسے مبینہ طور پر ’فحش، بیہودہ اور فحاشی پر مبنی‘ قرار دیا گیا۔

یہ کنال کامرا کا بھی قانون سے پہلا واسطہ نہیں ہے۔ 2020 میں انہوں نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹس کیں جس پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی اجازت دی گئی۔ ملک کے اٹارنی جنرل نے ان کے الفاظ کو ’برا ذوق‘ قرار دیا۔

2021 میں اپنی سماعت سے قبل دائر ایک حلف نامے میں، کامرا نے کہا: ’میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی اعلیٰ اختیار، بشمول ججز، صرف طنز یا مزاح کا نشانہ بننے کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہو جائے گا۔‘اب بھی انہوں نے اسی انداز میں ردِعمل دیا جیسا کہ تب دیا تھا — پیر کو انہوں نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ انڈین آئین کی ایک کاپی تھامے ہوئے تھے، کیپشن میں صرف لکھا تھا: ’آگے بڑھنے کا واحد راستہ۔‘

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Kunal Kamra (@kuna_kamra)

بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک طویل بیان جاری کیا۔ ’ہماری اظہارِ رائے کی آزادی صرف طاقت ور اور امیر لوگوں کی تعریف کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی، حالانکہ آج کا میڈیا ہمیں یہی یقین دلانا چاہتا ہے۔

کسی طاقتور عوامی شخصیت پر کیے گئے مذاق کو برداشت نہ کرنے کی آپ کی صلاحیت میری آزادی کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرتی۔ جہاں تک مجھے علم ہے، ہمارے رہنماؤں اور ہمارے سیاسی نظام کے سرکس کا مذاق اڑانا غیر قانونی نہیں ہے۔‘

2021 میں، کامیڈین منور فاروقی نے ’مذہبی جذبات مجروح کرنے‘ کے الزام میں 35 دن جیل میں گزارے۔ ایک عدالت نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ ہندو ہجوم نے ان کا شو شروع ہونے سے پہلے ہی بند کروا دیا اور انہیں پولیس سٹیشن لے گئے۔

2024 میں فرنانڈیز کو جین برادری پر ایک لطیفہ کرنے پر دھمکیاں دی گئیں اور ان کے کئی شوز منسوخ کر دیے گئے۔

اسی سال فروری میں، انوبھو سنگھ باسی کے شوز لکھنؤ میں منسوخ کر دیے گئے جب ریاستی خواتین کمیشن نے پولیس کو خط لکھا کہ ’اس تجویز کردہ پروگرام اور اس جیسے دیگر سٹینڈ اپ آرٹسٹس کے پروگراموں میں، نہ تو کوئی فحش الفاظ استعمال کیے جائیں اور نہ ہی خواتین پر کوئی نازیبا تبصرے کیے جائیں۔‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق: گذشتہ چند برسوں میں، جب سے کامیڈی پر بڑھتے ہوئے حملے ہوئے ہیں، کئی نمایاں کامیڈینز نے وکلاء رکھ لیے ہیں جو باقاعدگی سے ان کے لطیفوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

دی ہیبیٹیٹ، جو کہ کامرا کے سٹینڈ اپ شو اور انڈیاز گاٹ لیٹنٹ کے اس قسط کی میزبانی بھی کر چکا ہے جس میں الہ بادیا شامل تھے، نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ عارضی طور پر بند ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ’حالیہ تخریب کاری کے واقعات سے صدمے، پریشانی اور گہرے دکھ میں مبتلا ہیں۔ لیکن حالیہ واقعات نے ہمیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہر بار ہم پر الزام کیوں آتا ہے اور ہمیں نشانہ کیو بنایا جاتا ہے، جیسے ہم پرفارمر کا متبادل ہوں۔

’ہم اس وقت تک بند رہیں گے جب تک ہم اس بات کا کوئی بہتر طریقہ نہ سوچ لیں کہ ہم اظہارِ رائے کا ایک پلیٹ فارم کیسے فراہم کریں، بغیر اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈالے۔‘

جہاں تک انڈیاز گاٹ لیٹنٹ تنازعے کی بات ہے، شو سے منسلک 50 سے زائد افراد — جن میں ججز اور وہ کامیڈینز شامل ہیں جنہوں نے پچھلی اقساط میں شرکت کی — کو تفتیش کے لیے طلب کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔

انڈیا کی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ’مضر‘ مواد کے لیے نئے قانونی فریم ورک پر غور کر رہی ہے کیونکہ اس بات پر بڑھتی ہوئی تشویش ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ فحش اور پرتشدد مواد کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر دکھایا جا سکے۔‘

سپریم کورٹ نے، الہ بادیا پر اپنے تبصرے کے بعد، انڈین حکومت سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ’فحش‘ مواد کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے یا نہیں، اور کہا کہ اگر حکومت ناکام ہوئی تو عدالت خود مداخلت کرے گی۔

’لیکن ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کچھ چاہتے ہیں۔ کچھ ہونا چاہیے، اور ہم کریں گے۔ ہم اسے ایسے ہی نہیں چھوڑیں گے۔‘

رائنا نے پیر کو مہاراشٹرا پولیس کو دیے گئے ایک بیان میں مبینہ طور پر ’اپنی غلطی تسلیم کی‘ اور شو کے لیے معذرت کی۔ مقامی میڈیا نے ان کے حوالے سے کہا: ’مجھے جو کچھ کہا گیا، اس پر گہرا افسوس ہے۔ یہ شو کے بہاؤ میں ہو گیا، اور میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کہا وہ غلط تھا۔‘

فرنانڈیز اور واز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رائنا اور الہ بادیا جیسے لوگ جس قسم کا مواد بناتے ہیں وہ اس لیے ہے کیونکہ وہ مقبول ہے۔

فرنانڈیز کہتے ہیں: ’یہ کامیڈینز کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ آپ کی اخلاقیات طے کریں۔ ہر بالغ شخص کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھے۔ یہ ایک سادہ رسد و طلب کا معاملہ ہے۔‘

’اگر کسی مسئلہ پیدا کرنے والے مواد کو دیکھنے والے موجود ہیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس مسئلہ زدہ لوگ ہیں۔ تو کیا ہم انہیں بھی پوچھ گچھ کے لیے بلائیں؟ اور اگر کسی کو یہ تشویش ہے کہ ان کے بچے کسی مسئلہ زدہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، تو بہتر والدین بن کر دکھائیں۔‘

واز کہتی ہیں: ’کسی نہ کسی سطح پر، بدقسمتی سے، ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ سامعین کیا چاہتے ہیں۔ اگر وہ جنس پرست کامیڈی چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں، تو کوئی نہ کوئی انہیں فراہم کرے گا۔‘

جب فرنانڈیز سے پوچھا گیا کہ کیا 2024 کے سیٹ کے بعد انہیں کسی قسم کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے کہا: ’ایک ہفتے تک شور شرابا رہا اور پھر ختم ہو گیا۔ ان ہجوموں کا مقصد فنکاروں کو معذرت کرنے پر مجبور کرنا ہے، دھمکیاں دے کر، اور پھر وہ چلے جاتے ہیں۔ جب بھی انڈین کامیڈی میں کوئی تنازعہ ہوتا ہے، زیادہ لوگ ہمارا کام دریافت کرتے ہیں، ٹکٹ کی فروخت بڑھتی ہے، اور سب ہنستے ہنستے بینک پہنچ جاتے ہیں۔‘

الہ بادیا اور رائنا اتنے خوش قسمت شاید نہ ہوں۔

انڈیا کے سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے 2022 میں کہا تھا: ’ہمارے فوجداری انصاف کے نظام میں، مقدمے کا عمل ہی سزا ہے۔‘

وکیل کرونہ نندی، جنہوں نے 2015 میں AIB کی نمائندگی کی تھی، نے رمنا جیسا بیان دیا: ’ایک بے ذوق لطیفے کی زندگی چھوٹی ہوتی ہے، لیکن ایک رجسٹرڈ ایف آئی آر کی زندگی بہت لمبی۔‘

الہ بادیا نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف مختلف ریاستوں میں دائر کیے گئے متعدد مقدمات کو یکجا کر دیا جائے تاکہ انہیں بار بار پورے ملک میں سفر نہ کرنا پڑے جب بھی انہیں طلب کیا جائے۔

اگرچہ عدالت نے کہا کہ اسی لطیفے پر الہ بادیا کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس نے موجودہ مقدمات کو یکجا نہیں کیا۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا رائنا اور الہ بادیا کے کیریئرز متاثر ہوتے ہیں، پولیس کنال کامرا کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے، اور کیا انڈیا کی حکومت ایک ایسے ملک میں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتی ہے جو ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 159 ویں نمبر پر ہے۔

جہاں تک انڈین کامیڈی کے مستقبل کا تعلق ہے، واز کی خواہش سادہ ہے۔

از نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: ’میں امید کرتی ہوں کہ مواد اور سیاق و سباق سے قطع نظر، تخلیقی لوگ کامیاب ہوں۔ اچھا اور برا فن ہمارا ثقافتی ورثہ ہے۔ اور تخلیق کاروں کو تخلیق کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، غلطیاں کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، اور ان سے آگے بڑھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

’دس سال بعد، یہ نوجوان مرد فنکار ماضی میں کہی گئی کچھ باتوں پر شرمندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن نہ وہ، اور نہ ہی ہم، اس وقت تک ترقی کر سکیں گے جب تک کسی کی غلطی پر پہلا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ اسے جیل بھیج دیا جائے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل