بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملے، چھ افراد جان سے گئے

ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق: ’دہشت گردوں نے مختلف اضلاع میں مسافر بسوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ غیر مقامی مسافر اور ایک سکیورٹی اہلکار جان سے گیا۔‘

13 مارچ 2025 کی اس تصویر میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں ایک حملے کے بعد ایمبولینس ایک سڑک سے گزرتے ہوئے (اے ایف پی/ بنارس خان)

پولیس نے جمعرات کو بتایا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ’مربوط‘ حملوں میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت چھ افراد جان سے چلے گئے، جن میں زیادہ تر بس مسافر تھے جنہیں ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’دہشت گردوں نے مختلف اضلاع میں مسافر بسوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ غیر مقامی مسافر اور ایک سکیورٹی اہلکار جان سے گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ علاقوں میں حملے اب بھی جاری ہیں۔

یہ حملے بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی، ضلع گوادر میں ہوئے۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے مسافر بسوں کو روکا اور غیر مقامی افراد کو شناخت کر کے نشانہ بنایا۔

نامہ نگار محمد عیسیٰ کے مطابق کوسٹل ہائی وے پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے گوادر سے کراچی جانے والی بس سے پسنی اور کلمت کے درمیان چھ غیر مقامی افراد کو اتارا اور ان پر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں پانچ افراد چل بسے اور ایک زخمی ہوگیا۔

اسی طرح کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ضلع مستونگ میں ناکہ بندی کے دوران مسلح افراد نے سی ٹی ڈی کے دو اہلکاروں پر فائرنگ کی۔

یہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے جب بلوچستان میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف متعدد شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کیا جا رہا ہے۔

نامہ نگار محمد عیسیٰ کے مطابق ڈپٹی کمشنر مستونگ ذوہیب کبزئی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ سے سی ٹی ڈی کا ایک اسسٹنٹ سب انسپیکٹر جاوید چل بسا جبکہ دوسرا اہلکار زخمی ہوگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اہلکار کے مطابق درجنوں عسکریت پسندوں نے مختلف اضلاع میں حملے کیے، شاہراہوں پر کنٹرول حاصل کر کے چوکیوں پر گاڑیوں کی تلاشی لی اور غیر مقامی مسافروں کو ہدف بنایا۔

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کلمت میں مسافروں پر فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کر کے ذمہ داران کو یقینی سزا دلانے کی ہدایت کی۔

جبکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ان حملوں کو ’بزدلانہ کارروائی‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسافروں کی شناخت کر کے انہیں نشانہ بنانا سفاکی اور درندگی ہے۔‘

تاحال کسی گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم بلوچ علیحدگی پسندوں نے حالیہ عرصے میں سکیورٹی فورسز اور غیر مقامی افراد پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

رواں ماہ 11 مارچ کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر مسلح افراد نے بولان کے علاقے میں حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنایا تھا۔ ٹرین میں 400 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے بعض کا تعلق افواج پاکستان سے تھا۔ اس حملہ کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

اس کے چند روز بعد ایک خودکش حملے میں کم از کم پانچ نیم فوجی اہلکار جان سے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی۔

یہ گروہ گذشتہ سال بھی مربوط حملے کر چکا ہے، جس میں ایک بڑی شاہراہ کا کنٹرول حاصل کر کے غیر مقامی افراد کو مارا گیا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

بلوچ عسکریت پسند غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے توانائی منصوبوں خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ خطے کے وسائل کو باہر کے لوگ استعمال کر رہے ہیں جبکہ مقامی آبادی محرومی کا شکار ہے۔

پاکستان کو طویل عرصے سے بلوچستان میں علیحدگی پسند بغاوت کا سامنا ہے، جہاں عسکریت پسند ریاستی فورسز، غیر ملکی شہریوں اور غیر مقامی افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان