پاکستان کے دیہی علاقوں میں معیارِ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کے 40 فیصد سے زائد طلبہ کی قابلیت دوسری جماعت کے برابر بھی نہیں۔ صنفی بنیادوں پر پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں قابلیت کی شرح زیادہ بہتر ہوئی ہے۔
’اثر‘ کے عنوان سے اس رپورٹ کو ادارۂ تعلیم و آگہی اور متعدد غیر سرکاری تنظیموں نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ انہیں اقوامِ متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف اور برطانیہ کے ترقیاتی ادارے ڈیفیڈ کا تعاون بھی حاصل تھا۔
تنظیموں کے رضاکاروں نے ملک بھر کے دیہی علاقوں میں جا کر تقریباً دو لاکھ طلبہ کے ٹیسٹ لیے۔
پانچویں جماعت کے طلبہ کو اردو یا مادری زبان میں لکھی ہوئی وہ کہانی پڑھنے کو کہا گیا جو دراصل دوسری جماعت کے نصاب سے تھی۔ 56 فیصد نے تو پڑھ کر سنا دی جبکہ 44 فیصد نہ پڑھ سکے۔
انگریزی فقرے پڑھنے میں پانچویں جماعت کے طالب علموں کی ناقابلیت کی شرح 48 فیصد تک پہنچ گئی حالانکہ یہ صلاحیت دوسری جماعت تک پیدا ہو جانی چاہیے۔
دو ہندسوں پر مشتمل تقسیم تیسری جماعت تک آ جانی چاہیے لیکن ٹیسٹ دینے والے پانچویں جماعت کے47 فیصد طلبہ ایسا نہ کر سکے۔
ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈیفیڈ کے ماہرین لکھتے ہیں کہ ’پاکستانی بچے سکول کے نو سالوں میں اتنا سیکھ رہے ہیں جتنا انہیں ساڑھے چار سالوں میں سیکھ جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے پاکستان تمام ہمسایہ ملکوں سے پیچھے ہے حتیٰ کہ افغانستان میں بھی سکول کے آٹھ سال پورے کرنے والے بچے پانچ سال تک کی تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر لیتے ہیں۔‘
سیکھنے کی صلاحیتوں میں مجموعی طور پر لڑکے لڑکیوں سے آگے ہیں البتہ پانچ سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اردو، انگریزی اور حساب کی سمجھ بوجھ میں لڑکیوں کی شرح نسبتاً زیادہ بڑھی ہے۔
2014 میں پانچویں جماعت کی 39 فیصد لڑکیاں اردو زبان میں دوسری جماعت کی کہانی پڑھ سکتی تھیں جبکہ 2018 میں 43 فیصد لڑکیوں نے اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ چار فیصد اضافے کے مقابلے میں اسی عرصے میں اردو پڑھنے کے قابل لڑکوں کی شرح محض ایک فیصد بڑھی۔
خیبر پختونخوا کی لڑکیوں میں اردو پڑھنے کی صلاحیت کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔ وہیں کے دیہات کے سرکاری سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد نجی سکولوں کی نسبت زیادہ ہے۔
پاکستان بھر کے ساڑھے چار ہزار سے زائد دیہات سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے نہ صرف نجی اور سرکاری سکولوں کو شامل کیا گیا بلکہ گھرانوں اور ان کی معاشی صورتحال کا بھی مطالعہ کیا گیا۔
ادارۂ تعلیم و آگہی کی سربراہ بیلا رضا جمیل نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ معیشت، داخلے اور قابلیت، ہر لحاظ سے حصولِ تعلیم میں پاکستانی لڑکیاں، لڑکوں سے پیچھے رہ رہی ہیں۔ دنیا بھر میں 13 کروڑ لڑکیاں سکول نہیں جاتیں جن میں پاکستانیوں کی قابلِ ذکر تعداد شامل ہے۔
صنفی بنیادوں پر تعلیمی مواقع کے فرق کو ختم کرنے کے لیے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں رویے بدلنے کی ضرورت ہے جس میں خاندان، معاشرے اور حکومت تینوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔‘