پاکستان سمیت مشرقی یورپ، شمالی اور مغربی آسٹریلیا، مشرقی افریقہ، بحرالکاہل اور بحر ہند میں آج سورج گرہن ہوگا۔ اس سورج گرہن کا دورانیہ چھ گھنٹے ہو گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، گلگت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں بھی سورج گرہن دیکھا جا سکے گا۔
سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند اپنے مدار میں چکر لگاتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے۔ اس وجہ سے چاند کا سایہ زمین کے جس حصے پر پڑتا ہے وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اور وہاں دن رات کی تاریکی میں بدل جاتا ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستانی معیاری وقت کے مطابق سورج گرہن صبح سات بج کر 30 منٹ پر شروع ہوگا اور آٹھ بج کر 37 منٹ پر بڑھ کر دوپہر ایک بج کر چھ منٹ تک جاری رہے گا، جسے پاکستان میں بھی مکمل طور پر دیکھا جا سکے گا۔
سنہ 1999 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب اتنے لمبے دورانیے کا سورج گرہن ہونے جا رہا ہے تاہم یہ غیرمعمولی اور تاریخی لمحہ 1999 سے مختلف ہوگا کیونکہ اس مرتبہ سورج کی مکمل شعاعیں زمین پر پڑنے سے نہیں رکیں گی بلکہ سورج کے گرد ’رنگ آف فائر‘ کی صورت میں آسمان پر روشنی دیکھی جا سکے۔
اس حوالے سے ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس دوران سورج کو براہ راست نہ دیکھا جائے کیونکہ اس سے بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔
سورج گرہن شروع ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر صارفین تصاویر اور ویڈیوز شائع کر رہے ہیں جبکہ ٹوئٹر پر ’سولراکلپس 2019‘ نامی ٹرینڈ بھی چل رہا ہے۔
خرم انصاری نامی صرف نے لکھا: ’اسلام آباد میں شدید دھند کے دوران اچانک سے گرہن لگا سورج نمودار ہو گیا۔‘
اسلام آباد میں شدید دھند کے دوران اچانک سے گرہن لگا سورج نمودار ہو گیا....#solareclipse2019 pic.twitter.com/ndZptpPTmt
— Khurram Ansari (@khurram143) December 26, 2019
ایک اور صارف ساجد علی نے ایک تصویر شیئر کی ہے جس پر انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ شروع ہو گیا ہے اور میں اپنے خاص عینک کے ذریعے اسے دیکھ سکتا ہوں۔‘
Right now #solareclipse2019 pic.twitter.com/MdPeJNdenW
— Sajjad Ali! (@WordsbySajjad) December 26, 2019
گرہن سے جڑے توہمات:
دنیا بھر میں سورج اور چاند گرہن سے کئی طرح کے تصورات اور توہمات بھی جڑی ہیں۔
بعض کے خیال میں اس طرح کے کسی بھی لمحے کا ہماری زندگیوں پر بڑے اثرات ہوتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں اگر احتیاط نہ برتی جائے۔
جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن سے کئی بڑی تبدیلیاں بھی نمودار ہوتی ہیں۔ یہاں پاکستان کے حوالے سے یاد دلاتے جائیں کہ 1999 میں ہونے والے سورج گرہن کے بعد دو ماہ کے اندر اندر ہی اس وقت کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے مطابق بلوچستان میں چاند اور سورج گرہن کے حوالے سے بہت سے دیومالائی قصے مشہور ہیں جن میں یہاں کے باشندے اسے ایک ’بلا‘ تصور کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیومالائی قصوں میں جہاں زمانہ قدیم کا انسان بہت سی چیزوں سے خوف کھاتا اور بعض چیزوں کو اپنا ہمدرد تصور کرتا ان میں سورج اور چاند اس کے دوست ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں براہوی ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر منظور بلوچ کے مطابق بلوچستان کے بلوچ اور براہوی زبان بولنے والے علاقوں میں چاند اور سورج گرہن کے حوالے سے بہت سے توہمات موجود ہیں۔
منظور بلوچ کے مطابق جب انسان زرعی تہذیب سے ناآشنا تھا تو اس نے بہت سی چیزوں کو دیومالائی طاقتوں کی شکل دے رکھی تھی۔ منظور بلوچ کے بقول یہ وہ دور تھا جب انسان زراعت سے ناواقف تھا یا کہہ سکتے ہیں کہ جنگل میں رہتا تھا۔
ان کے مطابق: ’بلوچ اور براہوی قبائل سمجھتے ہیں کہ گرہن ایک بلا ہے جو آسمان سے انسانوں کی تباہی کے لیے آ رہی ہے جس کو روکنے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں لیکن اس کا راستہ چاند اور سورج نے روک کر اپنی قربانی دے دی ہے اور اس نے خود کو بلا کے منہ میں ڈال دیا ہے۔‘
منظور بلوچ کہتے ہیں: ’چونکہ یہ بلا طاقتور ہے اور اس نے سورج اور چاند کو اپنے منہ میں لے لیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جب یہاں پر چاند یا سورج گرہن کا وقت ہوتا سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوکر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے شور شرابا کرتے برتن ٹین وغیرہ بجاتے تھے تاکہ اس بلا کو کسی طرح اپنے دوست سے دور کریں۔‘
منظور بلوچ بتاتے ہیں کہ گرہن کے دوران بعض منچلے پتھر بھی پھینکتے تھے تاکہ اگر وہ شور شرابے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تو وہ ان پتھروں کے خوف سے دور ہٹ جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے نظارے ہمیں آج سے 20 سال قبل تک بھی پہاڑوں پر موجود باشندوں میں نظر آتے رہے ہیں۔