پاکستان سپر لیگ پی ایس ایل نے اپنے دس سال پورے کر لیے ہیں۔ 2016 میں دبئی کے میدانوں سے شروع ہونے والی پاکستان سپر لیگ تمام تر نشیب و فراز کے ساتھ اپنے دسویں سیزن میں داخل ہو چکی ہے۔
پی ایس ایل کے 2025 کے ایڈیشن کا آغاز شائقین کرکٹ کے لیے لمحۂ فخریہ ہو گا کہ ایک ایسی لیگ جس کا آغاز ہی اپنی زمین پر نہیں ہو سکا تھا اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا، وہ لیگ آج آئی پی ایل کے بعد ایک مقبول اور دلچسپ لیگ بن چکی ہے۔
ان گذشتہ دس سال میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب لیگ کو روک دیا گیا اور میچز وقت پر شروع نہ ہو سکے۔
پی ایس ایل کا ابتدائی خاکہ 2015 میں بنایا گیا اور اسے آئی پی ایل کی طرز پر ترتیب دیا گیا، تاہم پی ایس ایل نے کھلاڑیوں کی نیلامی کے بجائے ڈرافٹنگ کا سسٹم اپنایا، جس کی وجہ کم سرمایہ کار اور محدود ذرائع تھے، ابتدا میں پانچ ٹیمیں تھیں جنھیں دس سال کے عرصہ کے لیے فروخت کیا گیا اور خریدنے والوں کو دس سال تک کے حقوق حاصل ہیں۔
پانچ ٹیموں کا تجربہ دبئی کی حد تک مناسب تھا لیکن جب 2018 میں پی ایس ایل کے آخری تین میچ پاکستان میں کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو ایک اور ٹیم کی ضرورت محسوس کی گئی اگرچہ کشمیر۔ گلگت اور سندھ کے نام سے ٹیمیں زیر غور رہی لیکن 2018 میں ملتان سلطانز کے نام سے چھٹی ٹیم شامل کی گئی اور اسے ریکارڈ قیمت 50 لاکھ ڈالر میں فروخت کیا گیا تاہم اس کے ابتدائ مالکان شون گروپ قسط ادا نہ کرسکے اور پھر دوسال بعد اسے 2020 میں ترین گروپ کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے مستعدی سے اسے کامیاب فرنچائز بنا دیا۔
پاکستان میں تمام میچ
پی سی بی نے 2018 اور 2019 دو سال کی مدت میں چند میچ کرا کے غیر ملکی کھلاڑیوں کو راضی کر لیا کہ وہ پاکستان میں آ کر کھیلیں۔ ان کی دلچسپی کے بعد 2020 میں پی ایس ایل مکمل طور پر پاکستان منتقل کر دی گئی۔
پاکستان میں پانچ مکمل تمام سیزن کامیابی سے کرنے کے بعد پی سی بی نے ان تمام پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا کہ غیر ملکی کھلاڑی پاکستان نہیں آئیں گے۔
اگر انتظامات کے معیار سے ہٹ کر شائقین کی دلچسپی کو دیکھا جائے تو پی ایس ایل پاکستان آنے سے تماشائیوں کو ایک دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو ملی اور پی ایس ایل ایک قومی اثاثہ بن گئی۔
تنازعات
پی ایس ایل کا دامن اگرچہ بڑی حد تک تنازعات سے پاک رہا ہے، لیکن ایک دو ایسے واقعات ہوئے جس سے پی ایس ایل کی ساکھ کو ٹھوکر لگی۔ 2017 میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو آئی سی سی اینٹی کرپشن کمیٹی نے سپاٹ فکسنگ کے افراد سے رابطہ میں ملوث پایا۔ دونوں پر پہلے ہی نظر رکھی جا رہی تھی تاہم دونوں نے جب طے شدہ فکسنگ کی تو پکڑے گئے، اور دونوں پر پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی۔
سال 2021 پی ایس ایل کا بدترین سال رہا، جب کرونا نے لیگ کو جکڑ لیا کرونا کے سبب ٹیمیں آئسولیشن میں تھیں لیکن پشاور زلمی کے وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی نے آئسولیشن کی خلاف ورزی کی اور ببل سے باہر ٹیم کے مالک سے ملاقات کی جس کا ٹیم پر اثر پڑا۔ اس دوران کرونا نے مزید کئی کھلاڑیوں کو متاثر کیا۔ لاہور قلندرز کراچی کنگز اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑی کرونا میں مبتلا ہونے کے بعد پی ایس ایل کو یکم مارچ 2021 کو ملتوی کردیا گیا۔ بعد ازاں اس سیزن کے باقی میچ ستمبر 2021 میں دبئ میں کھیلے گئے۔
پی ایس ایل کس قدر منفعت بخش
پی ایس ایل اگرچہ مالی طور پر بہت فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکی ہے تاہم اپنے دس سال پورے ہونے پر بھی اسے ایک نفع بخش ایونٹ کہا جاتا ہے۔ ایونٹ نے اپنے پہلے ہی سیزن میں 23 لاکھ ڈالر کمائے تھے جس میں 70 فیصد حصہ پی سی بی کا اور تیس فیصد فرنچائز مالکان کا ہوتا ہے۔
پی ایس ایل کی آمدنی میں ریکارڈ منافع 2021 میں ہوا جب رمیز راجہ کی صدارت کے دوران لیگ نے 30 لاکھ ڈالر خالص منافع کمایا، جو بڑھ کر اگلے سال 35 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔ پی ایس ایل کی اصل آمدنی اسپانسر شپ سے ہوتی ہے حبیب بینک جو سب سے بڑے اسپانسر ہیں۔ وہ 60 فیصد ریونیو فراہم کرتے ہیں جبکہ چالیس فیصد ٹی وی رائٹس اور گیٹ منی سے ہوتا ہے۔
پی سی بی نے 2021 سے تمام فرنچائز کو اربوں روپے دینا شروع کیے ہیں۔ فرنچائز کا شکوہ ہے کہ انہیں ابھی تک اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی مکمل ریونیو نہیں مل رہا ہے، جبکہ پی سی بی اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ پی ایس ایل کا حجم بڑھ چکا ہے، اور فرانس کے ایک ادارے کے حساب کتاب کے مطابق پی ایس ایل کی مارکیٹ ویلیو 40 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ جس حساب سے پی ایس ایل نے ڈیجیٹل رائٹس کی مارکیٹنگ کی ہے اس کے مطابق رواں سال حجم 50 کروڑ ڈالر ہو گا۔ اگر اس کا مقابلہ دوسری لیگز سے کریں تو پی ایس ایل ’دی ہنڈریڈ‘ اور بگ بیش لیگ کے برابر نظر آتی ہے، لیکن ناظرین کے حساب سے یہ دوسری بڑی لیگ ہے۔
پی ایس ایل 10
اس سال لیگ کی خاص بات بہت سے نئے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی شمولیت ہے۔ اگرچہ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ پی ایس ایل میں بڑے کھلاڑی نہیں آتے ہیں، اور زیادہ تر ریٹائرڈ اور اپنی قومی ٹیم سے ڈراپ ہونے والے کھلاڑی شامل ہیں۔ شاید یہ الزام کسی حد تک درست ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بہت سے بڑے کھلاڑی صرف آئی پی ایل کھیلتے ہیں جہاں انہیں بہترین معاوضہ ملتا ہے۔ لیکن کچھ کھلاڑی پی ایس ایل سے ہی مشہور ہوئے اور اپنے قومی ٹیم میں شامل ہوئے جن میں سرفہرست آسٹریلیا کے ٹم ڈیوڈ ہیں۔
اس سال ڈیوڈ وارنر، کین ولیمسن اور بہت سے دوسرے عظیم کھلاڑی لیگ کا حصہ ہیں۔ ڈیوڈ وارنر تو کراچی کنگز کی قیادت کر رہے ہیں۔ کراچی کنگز میں دوسرے اہم کھلاڑی جیمز ونس، ٹم سائیفرٹ اور محمد نبی ہیں جبکہ مقامی کھلاڑیوں میں شان مسعود، عامر جمال اور عرفان نیازی قابل ذکر ہیں۔
اس بار فیورٹ کون ہے؟
کراچی کنگز نے اب تک ایک مرتبہ 2019 میں ٹائٹل جیتا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ لیگ کی واحد ٹیم ہے جس نے تین مرتبہ ٹائیٹل جیتا ہے، اور اس سال بھی فیورٹ ہے۔ کپتان شاداب خان کے ساتھ عماد وسیم سلمان علی آغا کولن منرو اور میتھیو شارٹ اہم کھلاڑی ہیں۔
اسلام آباد کی سب سے اہم طاقت ان کی جارحانہ بیٹنگ ہے جو شروع سے میچ کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔
تاہم اس بار لاہور قلندر اسلام آباد کو ٹکر دے سکتی ہے۔ لاہور قلندرز دو مرتبہ ٹائیٹل جیت چکی ہے اور متوازن ٹیم نظر آتی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی برقرار ہے حالانکہ گذشتہ سال کارکردگی بہت خراب تھی لیکن ٹیم کو اس سال بہت امیدیں ہیں فخر زمان، ڈیرل مچل، ٹام کرن، زمان خان اور سیم بلنگز کی موجودگی میں ٹیم بہت متوازن ہے، اور توقع ہے کہ اس سال لاہور تیسری دفعہ ٹائیٹل جیت سکتی ہے۔
ملتان سلطانز کی ٹیم بھی اس سال بہت مضبوط اور توانا ہے محمد رضوان ہر سال زبردست کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس سال ٹیم میں نمایاں کھلاڑی افتخار احمد، شائی ہوپ، مائیکل بریسویل، ڈیوڈ ولی، عثمان خان، عاکف جاوید اور کرس جورڈن ہوں گے۔
یہ وہ گروپ ہے جس نے اگر یک جان ہوکر کارکردگی دکھا دی تو کسی بھی ٹیم کے دانت کھٹے کر سکتی ہے۔ تاہم ملتان ہر سال فائنل تک پہنچ کر پیچھے رہ جاتی ہے۔ فقط ایک دفعہ ٹائیٹل جیت سکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور زلمی کے لیے سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ صائم ایوب فٹ ہو گئے ہیں اور ایک ہفتے سے پریکٹس کر رہے ہیں۔ بابر اعظم کی کپتانی میں ٹیم کیل کانٹے سے لیس ہے۔ بیٹنگ میں محمد حارث، کیڈمور اور حسین طلعت نمایاں ہیں۔ بولنگ کی خاص بات تین عمدہ سپنرز عارف یعقوب، سفیان مقیم اور مہران ممتاز ٹیم کا حصہ ہیں۔
پشاور کی فاسٹ بولنگ اگرچہ کچھ کمزور ہے لیکن پشاور ہمیشہ سے بیٹنگ ٹیم رہی ہے۔ تاہم ان کے پاس محمد علی، اور جوزف الزاری کی شکل میں دو اچھے بولر موجود ہیں۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس سال اپنے نئے نوجوان کپتان سعود شکیل کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ کوئٹہ نے اس سال مائیک چیپمیئن کو سائن کیا ہے جبکہ سدا بہار ریلی روسو بھی موجود ہیں۔ کوشال مینڈس، شعیب ملک اور فن ایلن کی بیٹنگ قابل دید ہو گی۔ بولنگ بھی متوازن ہے۔ محمد عامر خرم شہزاد اور کائل جیمیسن کی فاسٹ بولنگ کے ساتھ ابرار احمد کی سپن بولنگ میچ کا نقشہ پلٹ سکتی ہے۔
سابق کپتان سرفراز احمد ٹیم کے مینٹور ہوں گے۔ کوئٹہ نے اگر سو فیصد کارکردگی دکھائی تو اچھے چانسز ہیں۔
کراچی میں شائقین کی عدم دلچسپی
مجموعی طور پر پی ایس ایل نے اپنے دس سال میں شائقین کرکٹ کو شاندار تفریح فراہم کی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی ایس ایل کراچی میں سٹیڈیم بھرنے میں ناکام ہے۔ اب لوگ سٹیڈیم آ کر دیکھنا نہیں چاہتے۔ کراچی میں صرف پانچ میچ رکھے گئے ہیں۔ گذشتہ سال کراچی میں فائنل کے باوجود سٹیڈیم خالی پڑے رہے، جس سے بورڈ نے اس سیزن میں کراچی کو ترجیح نہیں دی ہے۔
دس سال کے بعد بھی پی ایس ایل اپنی پہچان ایک سنسنی خیز لیگ کی حیثیت سے پہچان نہیں کرا سکی ہے اور پرکشش مراعات اور فیس نہ ہونے کے باعث پی ایس ایل بڑے کھلاڑیوں سے محروم ہے۔ پی ایس ایل کی انتظامیہ بھی جدت پسندی کے بجائے روایتی دقیانوسی جہت اپنا کر اس کی مقبولیت کو کم کر رہی ہے، جس کی شکایت سابق چیئرمین اور پی ایس ایل کے خیال کے بانی نجم سیٹھی بھی کر چکے ہیں۔