درد کا احساس پیدا کرنے والا سرکٹ پہلی بار تجربہ گاہ میں تیار

اس پیش رفت سے دائمی درد کا راز کھولنے اور اعصابی درد کی ادویات تیار کرنے میں مدد ملے گی۔

امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں ایک ڈش کے اندر دماغ کے سرکٹس تیار کیے ہیں جن میں الیکٹرک سگنل سفر کر سکتے ہیں (فائل فوٹو: اینواتو) 

سائنس دانوں نے پہلی مرتبہ اس دماغی سرکٹ کو تجربہ گاہ میں دوبارہ تیار کیا ہے جو درد کا احساس منتقل کرتا ہے۔

 یہ اہم پیش رفت امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے کی ہے، جو درد سے متعلق بیماریوں کے بہتر علاج کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

لیبارٹری میں درد کے راستوں کی نقشہ سازی سے یہ بھی ممکن ہو جائے گا کہ اعصابی سرکٹس پر تجربات جانوروں کو درد دیے بغیر کیے جا سکیں۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی میں نفسیات اور رویہ جاتی سائنس کے پروفیسر سرگیو پاسکا، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے تھے، نے کہا، ’ہم اب اس راستے کو غیر مداخلت انگیز طریقے سے ماڈل کر سکتے ہیں۔

’لیبارٹری میں بنائے گئے یہ اعصابی سرکٹ درد ’محسوس‘ نہیں کرتے۔ یہ صرف وہ اعصابی سگنل منتقل کرتے ہیں جنہیں ہمارے دماغ کے دوسرے حصے مزید پراسیس کرتے ہیں تاکہ ہمیں درد کی ناخوشگوار اور اذیت ناک کیفیت محسوس ہو۔‘

یہ پہلا موقع ہے کہ سائنس دانوں نے درد محسوس کرنے والے پورے اعصابی راستے، جو جسم کی جلد سے لے کر دماغ تک پھیلے ہوئے ہیں، میں برقی سگنلز کی لہریں گزرتے ہوئے دیکھی ہیں۔

انہوں نے یہ کام ’سینسری اسمبلیوئیڈ‘ بنا کر کیا، جو کہ انسانی خلیوں سے تجربہ گاہ میں بنایا گیا ایک چھوٹا سا نظام ہے جو درد کے سگنلز کی ترسیل کے پیچیدہ راستے کی نقل کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اسمبلیوئیڈز اب درد کش دواؤں کے تجربات، اعصابی چوٹوں کے مطالعے اور یہاں تک کہ مریضوں کے لیے ذاتی نوعیت کے علاج تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان سے یہ سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ بعض افراد دائمی درد کا شکار کیوں ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ویویان توفیق نے کہا، ’درد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘ وہ بےہوشی کی دوا، سرجری سے پہلے اور بعد کے درد اور اس کے علاج کی ماہر اور سٹینفورڈ سے وابستہ ہیں، اگرچہ وہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں۔

’امریکہ میں تقریباً 11 کروڑ 60 لاکھ افراد – یعنی ہر تین میں سے ایک – کسی نہ کسی شکل کے دائمی درد میں مبتلا ہیں۔

’یہ احساس بہت افسوس ناک ہوتا ہے جب آپ کسی ایسے مریض کے سامنے بیٹھے ہوں جو مستقل درد میں مبتلا ہو اور ہم ہر ممکن علاج آزما چکے ہوں، اور ہمارے پاس کوئی اور حل باقی نہ بچا ہو۔‘

یہ تحقیق نو اپریل کو نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے مطالعے میں پیش کی گئی جس کا عنوان تھا: ’اعصابی حسی سگنلز کے اوپر جانے والے راستے کا انسانی تجرباتی ماڈل (Human assembloid model of the ascending neural sensory pathway)۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق