چین نے جمعے کو اویغور ماہرِ تعلیم تاشپولات طیب پر خفیہ مقدمہ چلا کر انہیں سزائے موت سنانے کی خبر کی تردید کر دی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے بیجنگ سے اس بارے میں جواب طلب کیا تھا، جس کے بعد یہ تردید جاری کی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سنکیانگ یونیورسٹی کے سابق صدر تاشپولات طیب کے خلاف مقدمہ زیرسماعت ہے اور قانون کے مطابق ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے جمعے کو معمول کی میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ طیب پر بدعنوانی اور رشوت ستانی کا شبہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ستمبر میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ممتاز جغرافیہ دان تاشپولات طیب کو ایک خفیہ اور انتہائی امتیازی انداز میں چلائے گئے مقدمے میں سزا سنانے کے بعد لازمی طور پر پھانسی دے دی جائے گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ طیب 2017 میں جبری لاپتہ ہو گئے تھے اور خیال کیا جاتا ہے ان پر علیحدگی پسندی کا الزام عائد کیا گیا، تاہم ان کی حراست کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین کے ایک گروپ نے جمعرات کوعالمی ادارے کی طرف سے شائع کیے گئے ایک مضمون میں طیب کے مقدمے اور ان پر لگائے گئے الزامات کے معاملے میں بے یقینی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ماہرین نے بتایا کہ انہوں نے چینی حکومت سے وضاحت کے لیے کہا ہے کہ طیب اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں، ساتھ ہی خاندان کے لوگوں کو ان سے ملنے کی اجازت دینے پر بھی زور دیا گیا۔
چین کو صوبہ سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ اویغور مسلمانوں اور دوسری لسانی اقلیتوں کو، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، حراستی مراکز میں رکھنے پر عالمی مذمت کا سامنا ہے۔
طیب بھی ان بہت سے دوسرے اویغور دانش وروں کی طرح ہیں جو اچانک منظر سے غائب ہو گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کو خدشہ ہے کہ لاپتہ افراد کو چینی حکومت کے ہاتھوں تشدد کا سامنا ہے۔