پشاور میں 120 سالہ قدیم درس گاہ ایڈورڈز کالج کے تنازع اور اس کے مسیحی پرنسپل کو معطل کیے جانے کے بعد چرچ آف پاکستان نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا۔
دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا نے ایک بار پھر ایڈورڈز کالج کو چرچ آف پاکستان کی ملکیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیا پرنسپل بھی مسیحی ہوگا جن کے انتخاب کے لیے انھوں نے ایک سلیکشن کمیٹی بنانے کا حکم جاری کر دیا۔
ایڈورڈز کالج کے سابق پرنسپل بریگیڈئیر (ر) نئیر فردوس کو ہٹائے جانے کے بعد بشپ سرفراز ہمفرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ وہ پہلے کالج کے تنازع پر سپریم کورٹ گئے تھے لیکن اب وہ نئیر فردوس کی خاطر جائیں گے۔
انہوں نے کہا: ’پرنسپل کو جن وجوہات کے باعث ہٹایا گیا وہ ناقابل قبول ہیں۔ ان پر کرپشن کا گھناؤنا الزام لگایا گیا اور پھر اس کی انکوائری بھی نہیں کی گئی حالانکہ میں نے انڈپینڈنٹ اردو کی وساطت سے صوبائی حکومت اور ایڈورڈز کالج میں پرنسپل کے مخالف گروپ کو چیلنج دیا تھا کہ اگر نئیر فردوس پر کسی بھی قسم کی کرپشن ثابت ہو گئی چرچ سپریم کورٹ سے اپنا کیس واپس لے لے گا۔‘
بشپ سرفراز کے مطابق ’نہ تو کسی قسم کی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کوئی رپورٹ آئی، البتہ اس برطرفی میں ایک اور نا انصافی یہ ہوئی کہ نئیر فردوس کی مدت ملازمت میں ابھی مزید پانچ سال باقی تھے۔ کچھ سال پہلے بورڈ آف گورنرز نے ان کی مدت ملازمت جو کہ پانچ سال تھی، کے علاوہ مزید پانچ سال کی توسیع دی تھی، لہٰذا ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک تو پرنسپل کے عہدے کی توسیع کا معاہدہ توڑا گیا اور دوسرا یہ کہ ان پر کچھ ثابت کیے بغیر کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور انکوائری بھی نہیں ہوئی۔‘
سرفراز ہمفرے نے مزید بتایا کہ نئے پرنسپل کی تعیناتی کے لیے جو سلیکشن کمیٹی بنائی ہے اس کے ارکان میں ایک مسیحی بھی ہونا چاہیے تھا۔ تاہم ان کے مطابق ان سے اس حوالے سے تاحال کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔
’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب صدر آصف علی زرداری سے لے کروزیراعظم عمران خان اور موجودہ گورنر تک ، تینوں تسلیم کر چکے ہیں کہ ایڈورڈز کالج چرچ آف پاکستان کی ملکیت ہے، تو پھر اس کالج کے اہم معاملات میں چرچ کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ ‘
دوسری جانب ایڈورڈز کالج کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئیر فردوس کی مدت ملازمت کا معاہدہ 15 دسمبر کو ختم ہو گیا تھا اور مزید توسیع دینا حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کالج حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کے سامنے دعویٰ کیا کہ نئیر کو بورڈ آف گورنرز نے کبھی توسیع نہیں دی بلکہ چرچ نے خود ہی کالج میں تعمیر کے ایک 10سالہ منصوبے کی منٹس پر توسیع کی ایڈیشن کی ہوئی ہے۔
کالج حکام نے الزام لگایا کہ درحقیقت بورڈ آف گورنرز کو کچھ اور منٹس پیش کیے گئے تھے جس کو منظوری مل گئی تھی اور آخر میں چرچ نے ٹمپرنگ کرکے اس میں 10سال منصوبے کا انچارج پرنسپل کو بھی بنا دیا۔
حکام کے مطابق اگر بورڈ آف گورنرز نے ایسا کچھ کیا ہوتا تو اس کا نوٹیفیکیشن بھی موجود ہوتا۔
کالج حکام کا کہنا ہے کہ 13 دسمبر کو کالج عملے نے اس ٹمپرنگ کے حوالے سے گورنر کو ایک خط بھی لکھا تھا اور 19 دسمبر کو بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ، جس میں گورنر اور بشپ کی نمائندہ ڈاکٹر سارہ صفدر بھی موجود تھیں، اس موضوع پر دوبارہ بات کی گئی۔
جب بشپ سرفراز سے اس ٹمپرنگ کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے اسے کالج کے ایک سازشی ٹولے کی سازش قرار دیا کیونکہ ان تمام باتوں کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ چرچ دھوکہ دہی کر رہا ہے۔
’ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ پرنسپل کو توسیع دی گئی تھی اسی لیے ہم سپریم کورٹ جارہے ہیں۔ توسیع کی دستاویزات پہلے ایگزیکیٹو کمیٹی اور اس کے بعد بورڈ آف گورنرز کے پاس گئی تھیں۔‘
جب سرفراز ہمفرے سے پوچھا گیا کہ ایک پرنسپل کے عہدے کی مدت ملازمت پانچ سال ہوتی ہے تو ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ انہیں مزید پانچ سال کی توسیع دی گئی؟ تو انہوں نے بتایا کہ پرنسپل کی مدت ملازمت پانچ سال سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کالج میں ایسے لوگ بھی آئے، جو 20 ،20 سال پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے اور جہاں تک برطرف شدہ پرنسپل کی بات ہے تو ان کو توسیع اس لیے دی گئی کیونکہ وہ ایڈورڈز کالج میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے، اسی لیے اس کی سربراہی بھی انہیں سونپی گئی۔
ایڈورڈز کالج کا بشپ کے سوالوں کا جواب
ایڈورڈز کالج پچھلے کئی سالوں سے تنازع کا شکار رہا ہے۔ چرچ آف پاکستان اسےاپنی ملکیت قرار دے رہا ہے جس کی وجہ سے وہ پرنسپل کی تعیناتی اور دوسرے اہم امور کے اختیارات اپنے پاس رکھنا حق سمجھتا ہے۔
دوسری جانب ایڈورڈز کالج کا عملہ اس حوالے سے بشپ سرفراز سے اختلاف رکھتا ہے اور اس معاملے میں گورنر خیبر پختونخوا کے پاس، جو کہ کالج کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین ہوتا ہے، شکایات لے کر جاتے ہیں، جس کی وجہ تنازع ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
حال ہی میں انڈپینڈنڈنٹ اردو نے اس معاملے پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں سے ایڈورڈز کالج کے نمائندے نے کچھ نکتے اٹھا کر بشپ سرفراز کے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔
ایڈورڈز کالج کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ بشپ سرفراز کے مطابق 1974 میں کالج کا بورڈ آف گورنرز بن چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ یہ مانتے ہیں کہ ایسا ہوا ہے تو پھر انھوں نے صوبائی حکومت پر کالج پرقبضہ کرنے کا الزام کیوں لگایا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ یوسف انور ایڈورڈز کالج میں بطور لیکچرر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے نئیر فردوس کے خلاف نیب کو درخواست دی تھی اور ان کی مبینہ کرپشن پر پریس کانفرنس بھی کی۔
انھوں نے کہا کہ بشپ سرفراز نے انجینیئر شوکت پر بھی الزام لگایا کہ وہ کسی مسلمان کو پرنسپل بنانا چاہتے تھے لیکن 2013 کے بورڈ آف گورنرز کے ریکارڈ کے مطابق گورنر شوکت اللہ نے خود کسی پاکستانی مسیح کو پرنسپل مقرر کرنے کی تجویز دی تھی۔
ایک نکتہ انہوں نے یہ بھی اٹھایا کہ بشپ نے جن تھرڈ ڈویژن پاس کو انگلش ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ لگانے کی بات کی تو ماضی میں انگلش تھرڈ ڈویژن کا امیدوار کسی بھی سرکاری نوکری کا اہل ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایڈورڈز کالج کے اس تھرڈ ڈویژن والے ٹیچر کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود سابق پرنسپل نئیر فردوس نے ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنایا تھا۔