ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت اور اس کے جواب میں امریکہ کے زیرِ انتظام اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں سے اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں اس خطے میں ایک اور جنگ نہ شروع ہو جائے۔
اس رپورٹ میں جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا ایران اور امریکہ دونوں کسی جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
حالیہ امریکی جنگوں کے اخراجات
امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق2001 کے بعد سے افغانستان، عراق، شام اور پاکستان میں امریکی فوجی اخراجات کا تخمینہ لگ بھگ 6.4 ٹریلین (6400 ارب) ڈالر ہے۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2020 کے لیے کل امریکی بجٹ 4.7 ٹریلین ڈالر تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے 2020 کے بجٹ کے مقابلے پر اس خطے کی جنگوں میں 1.4 گنا زیادہ خرچ کیا ہے۔ در حقیقت یہ جنگیں امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے شروع ہوئیں اور دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئیں۔
افغان جنگ: تقریباً ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر
امریکی جریدے فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں 19 سالوں میں فوجی موجودگی میں تقریباً 975 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں افغانستان میں فوج کی تعداد کم ہو کر دس ہزار کے قریب رہ گئی ہے، جس سے امریکی اخراجات بھی کم ہوئے ہیں لیکن وہ اب بھی 52 ارب ڈالر سالانہ ہیں۔
عراق جنگ: دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 تک عراق میں امریکی اخراجات کا تخمینہ دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ یقیناً یہ اخراجات شاید سات سال کے بعد مزید بڑھ گئے ہوں گے۔ افغانستان کی طرح عراق میں امریکی فوج کی موجودگی میں کمی آئی ہے مگر اب بھی وہاں بےتحاشا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔
کیا یہ سب خرچ بیکار گیا؟
بظاہر تو اس خطے میں چھ ٹریلین ڈالر کا خرچ بہت بڑی رقم ہے لیکن کیا واقعی یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور امریکہ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جنگ کے دوسرے فوائد کو چھوڑ کر ساز و سامان کی خریداری پر اٹھنے والے خرچ بھی کوئی زیادہ مہنگا سودا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی جو فوجی ساز و سامان تیار کرتا ہے اس کا بڑا حصہ بڑی بڑی امریکی کمپنیاں تیار کرتی ہیں، اور یہ جنگوں کے دوران بڑھ جانے والے خرچ کا ان کمپنیوں کو بےپناہ فائدہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لہٰذا ان تمام اخراجات کو مکمل طور پر گھاٹے کا سودا نہیں کہا جا سکتا۔
ایران کے ساتھ جنگ کا کتنا خرچ ہو گا؟
1- بھاری مالی اخراجات:
اگر امریکہ ایران کے ساتھ جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس پر ممکنہ طور پر عراق اور افغانستان کی جنگوں کے مقابلے پر کہیں زیادہ خرچ آئے گا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عراق، شام، لبنان اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ایران کی یا ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی فوجی موجودگی ہے، جہاں سے وہ امریکی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا عراق کے ساتھ جنگ کے مقابلے پر ایران کے ساتھ جنگ کے مقابلے میں دوگنا لاگت بھی فرض کرتے ہوئے امریکہ کو اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ جنگ پر خرچ کرنا پڑے گا جس سے یقینی طور پر امریکی معیشت دباؤ میں آ سکتی ہے۔
فوربز سمیت دوسرے مالیاتی جریدوں نے بھی کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ کی امریکہ کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
خطے میں طاقت کا توازن:
امریکہ نے ہمیشہ دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی طاقت کا توازن اپنی طرف جھکانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے وہ سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ملکوں کی مدد سے ایران کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جنگ کی صورت میں کیا صورتِ حال سامنے آتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اسرائیل:
امریکہ ایران سے بہت دور ہے، اس لیے ایران کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ جنگ کو امریکی سرزمین تک لے جائے۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ایران خطے میں امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی اسرائیل کو جنگ میں گھسیٹ لے۔
ایران کی اسلامی حکومت نے شروع سے اسرائیل کے بارے میں سخت ردعمل اپنا رکھا ہے، وہ اکثر اس کی تباہی کی بات کرتا ہے۔ اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا تو اس سے جنگ کی قیمت میں ڈرامائی اضافہ ہو جائے گا۔
بین الاقوامی دباؤ:
یہ بات درست ہے کہ مغربی میڈیا نسبتاً آزاد ہے، لیکن دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ عراق اور افغانستان کے ساتھ امریکی جنگ کے دوران بیشتر ملکوں کا میڈیا طاقتور گروپوں کے ہاتھوں میں تھا اور وہ مختلف پروگرام نشر کر کے رائے عامہ کو متاثر کر رہا تھا۔
لیکن ایک بات جو تب سے اب تک بدلی ہے وہ سوشل میڈیا کی آمد ہے۔ اب روایتی میڈیا کی طاقت کم ہو گئی ہے اور کوئی بات چھپانا آسان نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو دنیا بھر کا میڈیا امریکہ پر دباؤ ڈالے گا۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کو ایک طرف مواخذے کا سامنا ہے، دوسری طرف انتخابات میں بھی کم ہی وقت رہ گیا ہے۔ جنگ کا ان دونوں معاملات پر گہرا اثر ہو گا۔
جنگ کی قیمت:
ایران کے خلاف امریکی جنگ کے بھاری اخراجات کے پیش نظر توقع کرنی چاہیے کہ امریکہ جنگ کے اخراجات کا کچھ حصہ قرضوں کی سکیوریٹیوں کے ذریعے ادا کرے گا لیکن کیا حالات افغانستان اور عراق کے ساتھ جنگ کے وقت سے ملتے جلتے ہیں؟
2008 میں امریکی فیڈرل ریزرو نے امریکی حکومت کے بانڈز بھاری مقدار میں خریدے اور نوٹ پرنٹ کر کے کرنسی میں تقریباً چار گنا اضافہ کر دیا۔ امریکہ پہلے ہی قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2020 تک امریکی عوام کا قرضہ جی ڈی پی کے 110 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے نتیجے میں امریکی قرضے میں ڈرامائی اضافہ ہو جائے گا۔
ایران:
امریکہ کو جتنی بھی مالی دشواری پیش آئے، ایران کو اس کے مقابلے پر کہیں زیادہ قیمت چکانی ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بڑے آرام سے پاسداران کے کمانڈر کو ہلاک کر دیا۔ ایران کے اندر جنگ لڑی گئی تو اس کا انفرا سٹرکچر تباہ ہو جائے گا۔ امریکہ صرف میزائل پھینک کر ملک کی تیل اور گیس کی صنعت کو کچل سکتا ہے۔
دوسری طرف معاشی پابندیوں کے باعث ایران اسلحہ اور پرزے بھی نہیں خرید سکتا۔ اگر اس کا کوئی سامان خراب ہوتا ہے تو اسے دوبارہ ٹھیک کرنا بہت مشکل ہو گا۔
کیا ہو گا؟
گذشتہ چند سالوں سے جاری امریکی جنگوں کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے عام طور پر ان جنگوں میں حصہ لیا ہے جنہوں نے دوسرے ملکوں کو بہت کمزور کر دیا ہے۔
اس نے عراق سے صدام حسین کی حکومت کا صفایا کر دیا، اور صدام حسین کی فوج ایک بھی موثر جوابی حملہ کرنے میں ناکام رہی۔ افغانستان اور لیبیا میں بھی ایسا ہی ہوا۔
لیکن ایران کا معاملہ تھوڑا مختلف ہو گا۔ ایران کے عسکری اثاثے پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی مزاحمت کی طاقت عراق سے کہیں زیادہ ہے۔
لیکن اس کے باوجود اگر جنگ ہوئی تو ایران کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس کا کئی عشروں کی محنت سے تعمیر کردہ تعمیراتی ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا۔
دوسری طرف امریکہ کے لیے جنگ شروع کرنا آسان ہے، لیکن اسے سمیٹنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اس بات کا تجربہ امریکہ افغانستان اور عراق میں پہلے ہی کر چکا ہے۔