امریکی قانون سازوں نے ایران کے ساتھ جنگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ اپنایا ہے، جس کا مقصد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے اختیارات کو کنٹرول کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی جانب سے یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں پیش کی گئی، جب گذشتہ دنوں امریکہ نے عراق میں ایک فوجی اڈے پر فضائی کارروائی کے دوران ایران کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا تھا، جس کے بعد ایران نے سخت ردعمل دینے کا اعلان کرتے ہوئے آٹھ جنوری کی صبح عراق میں اتحادی فورسز کے دو فوجی اڈوں پر میزائل داغے تھے۔ امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی کے باعث مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔
کانگریس میں زیادہ تر علامتی لیکن سیاسی طور پر دیے جانے والے ووٹ بڑی حد تک پارٹی پالیسی کے ساتھ تھے، جب کہ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے تین ارکان نے بھی اس اقدام کی منظوری میں ڈیموکریٹس کی حمایت کی، جس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت تک ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرسکیں گے، جب تک کانگریس کی جانب سے اس کی منظوری نہ دی گئی ہو۔
اس عمل میں کانگریس میں ٹرمپ کے مضبوط حامیوں میں سے ایک میٹ گیٹز بھی شامل تھے، جنہوں نے ایوان میں اپنی تقریر میں کہا کہ اس اقدام سے ٹرمپ پر تنقید نہیں کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مشرق وسطیٰ میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں شامل ہونا غلط فیصلہ ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیٹز نے مزید کہا: ’اگر ہماری مسلح افواج کے ارکان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ان جنگوں میں جاکر لڑیں اور مریں تو بطور کانگریس ہمیں بھی ان کے حق میں یا ان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی ہمت کرنی چاہیے۔‘
ایک طرف قانون سازوں نے صدر کے اختیارات پر لمبی بحث و مباحثے کے بعد یہ قرارداد منظور کی، وہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ انہیں حملے کرنے کے لیے کسی کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے خلاف مزید فوجی کارروائی کے لیے کانگریس کی منظوری لیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا: ’اور آپ کو یہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ آپ کو بعض اوقات الگ الگ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‘
امریکی ڈرون حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے ردعمل میں عراق میں امریکی افواج کے ٹھکانوں کے خلاف ایرانی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے بدھ کے روز اشارہ دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، لیکن جمعرات کو انہیں اس وقت دوبارہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کسی جواز کے بغیر تنازع کے خطرات مول لیتے ہوئے قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
اوہائیو میں انتخابی مہم کے ایک جلسے میں ٹرمپ نے کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر کہا تھا کہ قاسم سلیمانی امریکی سفارت خانوں کے خلاف ’نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے،‘ اور ہم نے انہیں ختم کردیا۔
انہوں نے کانگریس میں اپنے ڈیموکریٹک مخالفین کا مذاق اڑایا اور انہیں توہین آمیز ناموں سے پکارتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر وہ ان سے مشورہ کرتے تو وہ اس خفیہ آپریشن کو ’جعلی خبروں‘ تک پہنچادیتے۔
انہوں نے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک سپیکر نینسی پیلوسی کی نقل کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا: ’آپ کو کانگریس سے اجازت لینی چاہیے۔‘
تاہم ڈیموکریٹس اور کچھ ری پبلکنز نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بارے میں انتظامیہ کے عقلی اصول کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
1973 کی جنگی طاقتوں کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے، جو صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر ملک کو جنگ میں جانے سے روکتا ہے، اس حالیہ اقدام سے صدر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایران یا اس کی حکومت کے کسی بھی حصے میں یا اس کی فوج کے خلاف کارروائی کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مسلح افواج کے استعمال کو ختم کرے۔‘
لیکن اس قرارداد کے متن میں چند رعایتوں کا بھی بندوبست کیا گیا ہے، مثلاً امریکیوں کے خلاف کسی حملے کی صورت میں طاقت کے استعمال سے دفاع یا اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
سپیکر نینسی پیلوسی نے اس قرار داد کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ کو لازمی طور پر بڑھتے ہوئے تشدد کو مزید روکنا ہوگا۔ امریکہ اور دنیا جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘
ایوان کی اس قرارداد کو ایک مشترکہ تجویز کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، جو کسی قانون کے برابر نہیں ہوتی، لیکن ایک سیاسی آلہ کار کی حیثیت سے یہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی سرزنش ہوسکتی ہے۔
ری پبلکن رکن کیون مکارتی نے نینسی پیلوسی کی اس کوشش کو ’شو ووٹ‘ قرار دیا ہے کیونکہ یہ قانون نہیں بن سکتا اور اسی وجہ سے ’امریکی عوام کے دفاع کے لیے ٹرمپ کے آئینی اختیار کو کبھی بھی محدود نہیں کرے گا۔‘