فرانس، امریکہ، جاپان، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک اور دیگر ملکوں کے آثار قدیمہ، جغرافیائی اور قدیم لسانیت کے ماہرین نے سندھ میں قدیم شہر موئن جو دڑو کی پُراسرار زبان سمجھنے کے لیے شہر کی مکمل کھُدائی کے ساتھ اسی دور کی سندھ میں موجود دیگر قدیم جگہوں کی کھُدائی اور قدیم آثاروں کا ڈیٹا بیس بنانے کی تجویز دی ہے۔
وادی سندھ کے ساڑھے چار ہزار سال قدیم شہر موئن جو دڑو کی پراسرار زبان کو ڈی کوڈ کرنے یعنی سمجھنے کے لیے ہونے والی تین روزہ عالمی کانفرنس ہفتے کی شام ختم ہوگئی۔
موئن جو دڑو کی کھُدائی کو 2020 میں 100سال مکمل ہونے پر اس شہر سے ملنے والی اشیا پر کندہ زبان کے رسم الخط اور شبیہوں کو سمجھنے کے لیے محکمہ نوادرات سندھ اور نیشنل فنڈ فار موئن جو دڑو کے اشتراک سے پہلی عالمی انڈس سکرپٹ کانفرنس منعقد کی گئی۔
کانفرنس میں شریک عالمی ماہرین اس قدیم شہر کی زبان کو مکمل طور پر ڈی کوڈ تونہ کرسکے مگر انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ایک مکمل زبان تھی جیسا کہ پہلے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کوئی باظابطہ زبان نہیں فقط جانوروں کی شبیہ والے نقش نگار ہیں۔
کانفرنس کی اختتامی تقریب میں عالمی ماہرین نے کہا کہ آج سندھ تہذیب کے حوالے سے کافی شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈس سکرپٹ کا سٹائل کئی بار ارتقاکی منزلیں طے کرتا رہا ہے، اس لیے انڈس تحریری نظام کو سمجھنے کے لیے سکرپٹ کے ارتقاکو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے انڈس سٹائل میں ارتقائی ترتیب کے چند نمونے پیش کیے۔
کانفرنس میں شریک محققین کا کہنا تھا کہ کسی بھی سکرپٹ کو ڈی کوڈ کرنا ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے اور کسی خطے کے حکومتی ادوار یا حکمرانوں کے ناموں کا ذرا برابر علم بھی ڈی کوڈرز کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، اسی طرح زبان کا علم یا اس کے مختلف لہجے یا پھر سکرپٹ میں مختلف نمائندہ زبانوں کی آگاہی بھی فائدہ مند ہوتی ہے۔
بقول ان کے: ’وادی سندھ تہذیب میں بہت طویل تحریروں کی غیر موجودگی اس تحریری نظام کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی باعث ڈی کوڈنگ کے لیے سوچا بھی نہیں جاسکتا، اس لیے کانفرنس کے تمام سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح کے مواد کی غیرموجودگی میں سکرپٹ کی ڈی کوڈنگ کے لیے سائنسی اور کثیرالجہتی کام پر زیادہ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ تہذیب کی یہ قدیم زبان 700 سالوں تک استعمال میں رہی اور مکمل طور پرنہ ملنے کے باعث اس قدیم زبان کی ڈی کوڈنگ میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کانفرنس میں شریک امریکی ماہر ڈاکٹر جوناتھن مارک کینائر نے کہا: ’یہ صرف بول چال والی نہیں بلکہ باضابطہ تحریری زبان تھی مگر اس دور میں دریائے سندھ کے کنارے دیگر شہروں میں بھی کئی زبانیں رائج تھیں، جیسا کہ آج کے دور میں دریائے سندھ پر آباد گلگت میں بلتی اور شینا زبانیں بولی جاتیں ہیں۔
’ موئن جو دڑو کی زبان کی تحریر کو دیگر زبانوں کو لکھنے کے لیے استعمال گیا ہے جیسے آج آپ اگر سندھی زبان کے حروف کو استعمال کرتے ہوئے اردو یا پشتو زبان کے الفاظ لکھیں تو جب تک دیگر جگہوں سے کوئی اور زبان نہیں مل جاتی اس زبان کو مکمل طور پر ڈی کوڈ کرنا ممکن نہیں ۔‘
ڈاکٹر جوناتھن نے مزید کہا : ’مصر کے آثاروں سے جیسے باضابطہ لکھت میں تحریریں ملی ہیں ویسے لمبی لکھت والی کوئی دستاویز موئن جو دڑو سے نہیں ملی، صرف برتنوں، مہروں یا دیگر اشیا پر کچھ الفاظ ملے ہیں۔
’ جب تک اس قدیم آثار سے کوئی اور زبان نہیں مل جاتی اور دونوں کا تقابلی جائزہ نہیں لیا جاتا اُس وقت تک اسے ڈی کوڈ کرنا بہت مشکل ہو گا،مگر ابھی تک ملنے والی اشیا پر لکھی ہوئی تحریر جس انداز میں لکھی ہوئی ہے اس سے کچھ معلومات مل سکتی ہیں کہ وہ لوگ کیسے زندگی بسر کرتے تھے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ موئن جو دڑو شہر کے باقی حصوں کی بھی کھُدائی کی جائے ،اس کے ساتھ موئن جو دڑو سے 100 کلومیٹر پر واقع سکھر شہر میں موجود لاکھین جو دڑو اور کو ٹ ڈیجی میں بھی کھُدائی کی جائے تاکہ وہاں سے ملنے والے اشیا پر درج تحریر کو موئن جو دڑو کی زبان سے مشابہت دے کر ڈی کوڈ کیا جاسکے۔
دو سکالرز ڈاکٹر بریان ویلز اور ڈاکٹر ایندریاس فلز نے وادی سندھ کی تہذیب میں استعمال ہونے والے ہندسوں کے نظام پر اپنے تفصیلی مقالوں میں کہا: ’کچھ قدیم علامتوں سے ہمیں اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ ان کا استعمال گنتی کے لیے کیا جاتا تھا، گو ان علامات کو گنتی سے منسلک کرنے کے حوالے سے پہلے بھی سوچ بچار ہوئی مگر اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس تہذیب میں ہندسوں کا نظام رائج تھا۔‘
کانفرنس کے دوران پیش کیے گئے کچھ مقالموں میں کہا گیا: ’عین ممکن ہے اس شہر سے ملنے والی اشیا پر بنے جڑواں نشانات یا علامات کا مطلب ہو کہ وہ لوگوں کے ذاتی ناموں جیسا کہ فلاں ابن فلاں کی طرح بھی لکھے جاتے ہوں۔‘
امریکی ماہر ڈاکٹر گریگ جیمسن نے تین اقسام کی مہروں کے، جن پر یونیکورن بنا ہوا ہے، حوالے سے انڈس تحریری نظام پر اپنی تحقیق میں ان اقسام کی مہروں میں مماثلت کھوجنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے اپنی فیلڈ ریسرچ کے دوران مختلف سائیٹس سے دریافت شدہ مہروں کا آپس میں تقابلی جائزہ لیا اور کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ مختلف سائیٹس سے ملنے والی مہروں میں مماثلت ہے، جبکہ کچھ اور مقامات پر وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔
’اس بات کی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ مہریں بنانے کے مراکز کئی جگہوں پر تھے اور بنانے والے کاریگر جانورں کے نقش بنانے کے ساتھ ساتھ فن تحریر سے بھی واقف تھے۔
’اس طرح کے تصویری تقابلی تجزیے کی مدد سے ان کے مابین مماثلت اور غیر مثالتی کے تمام پہلوؤں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں مہریں بنانے کے مراکز ، حتیٰ کہ مہریں بنانے والے ہنرمندوں کی بھی آگاہی مل سکتی ہے۔
’اس کی مدد سے ہمیں پتہ چلے گا کہ انڈس مہروں کے بنانے کے تمام مراحل کو کس ضابطے کے تحت اور کس طرح کنٹرول کیا جاتا تھا۔‘
اس کے علاوہ جاپان سے آئے ڈاکٹر ایومو کوناسوکاوا نے اپنی تحقیق پیش کی جس میں انھوں نے ہڑپہ کے اوائلی دور میں انڈس تحریری نظام کے ادوار، بیانیے اور نتیجہ اخذ کرنے کے لیے گھگر بیسن سے ملنے والی انڈس مہروں کی افادیت پر روشنی ڈالی۔
اٹلی کے ماہر ڈاکٹر ڈینیز فرینز نے اپنی تحقیق میں انھوں نے مہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مٹی سے بنی ہوئی اور ان پر نقش شدہ علامات خصوصی طور پر مغربی ایشین سائیٹس سے ملنے ایسی مہروں اور انڈس مہروں کے مابین تقابل کیا گیا ہے۔
بھارتی سکالرز دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کے بعد ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے ، کانفرنس میں ان کی طرف سے بھیجے گئے ریسرچ پیپرز پڑھے گئے۔
بھارت کے تین سکالرز کے ایم این واہیا، ڈاکٹر راجیش راؤ اور ڈاکٹر نشا یادیو کے مشترکہ ریسرچ پیپر میں انڈس سکرپٹ اور انڈس ریجن کے سماجی، ثقافتی و اقتصادی زاویے جبکہ ڈاکٹر نشا یادیو اپنے تحقیقی مقالے میں انڈس سکرپٹ کو سمجھنے کے لیے کمپوٹیشنل سٹڈیز پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔
ان کے مقالوں میں بتایا گیا: ’بیشتر سکالرز کی سوچ کے برخلاف انڈس سکرپٹ اپنی ساخت میں لسانی ماڈل کے زیادہ قریب ہے۔ ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ انڈس سکرپٹ کی علامات مکمل طور رسمی اورسرکاری تھیں نہ کہ بے مقصد قسم کے منتشر خیالات کو علامات کی شکل دے دی گئی ہو اور ان علامات اور مہروں کو بہت ہی اعلیٰ قسم کے ضابطے والے پیداواری طریقے سے تشکیل دیا جاتا تھا۔
’اس جائزے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہروں کو مختلف مقاصد کے استعمال کیا جاتا تھا اور ان تمام مقاصد کے اصول و ضوابط اور حدود مہریں استعمال کرنے والوں پر واضع تھیں اور ان کے ماڈلز کافی حد تک لسانی ماڈلز کے قریب تھے۔‘