ہم آج کل کے مشہور ترین کیس کی مثال لیتے ہیں۔ حریم شاہ چاروں طرف چھائی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ جس کے بارے میں ایک دن بات کرتی ہیں اگلے دن اس کی ویڈیو چلا دیتی ہیں۔ ویڈیو نہ ہو تو ایک تصویر بھی آگ لگا جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
کی بورڈ پہ انگلیاں پھسل رہی ہیں، انسان ہوں، سو جگتیں، سو چسکے دار باتیں یاد آتی ہیں لیکن نہیں، موضوع پہ رہنا بہتر ہے۔ ہر بات پہ ماہرانہ رائے دی جاتی ہے کہ ’دیکھیں جی بات اتنی سادہ نہیں ہے۔‘ بعض اوقات بات سادہ ہو بھی سکتی ہے۔ خاص طور پہ ڈیجیٹل بلیک میلنگ میں کسی کو شک کا فائدہ دیا جائے تو اس میں کیا برائی ہے؟ سیاست دان ایک مشہور آدمی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر بندہ تصویریں بنوانا پسند کرتا ہے۔ بندے کی بجائے اگر بندی ہو اور وہ کسی پارٹی ممبر کے ساتھ آئی ہو تو عام طور پہ سب لوگ اس کے ساتھ ایزی رہتے ہیں۔ وہ کبھی دوبارہ نظر آ جائے تو اکثر اسے پہچان لیا جاتا ہے، وہ تصویر کی فرمائش کرے تو اس کے ساتھ سیلفی بھی بنا دی جاتی ہے، بات آئی گئی ہو سکتی ہے۔ اب وہ ساری سیلفیاں بعد میں ایک کے بعد ایک ریلیز کی جائیں تو یقینی طور پہ ایسا ہی لگے گا جیسے حریم شاہ حکمران جماعت کی ہی ممبر ہیں۔ ویڈیو بھی اب نقل بہ مطابق اصل بنا لینا کوئی بڑی بات نہیں رہا اور یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے۔
بچے سے اب آ جائیں سیدھے اپنے بچوں پر۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ میں موبائل موجود ہے تو وہ کتنے بڑے رسک پر ہیں؟ کسی معمولی وائرس سے ان کا سارا ڈیٹا کسی بھی دوسرے موبائل یا لیپ ٹاپ میں جا سکتا ہے، انہی کا موبائل کیمرہ ان کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، ان کی لوکیشن ان کا کوئی بھی دوست ٹریک کر سکتا ہے، ٹین ایجر دوستوں نے اکثر اپنے پاس ورڈ بھی ایک دوسرے سے شئیر کیے ہوتے ہیں، کسی کی سالگرہ ہے، کسی کے گھر دعوت ہے، کوئی سکول کا پروگرام ہے، کالج کا فنکشن ہے، یونیورسٹی کے ہاسٹل میں انتہائی نجی یار باش قسم کی بیٹھک لگی ہے لیکن موبائل ہے کہ وہ سب کے ہاتھ میں ہے۔ ابھی کل ایک خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ٹیڈی بئیر یا اس قسم کے کھلونے بھی جی پی ایس ٹریکر یا ویڈیو کیمرے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم اس کی ویڈیو یا تصویریں کب بن جائیں اور کب انہیں بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر لیا جائے۔ نیوڈز کی تو باری ہی بہت دیر میں آتی ہے، ایک عام لڑکے یا لڑکی کو ڈرانے کے لیے تو یہی کہنا کافی ہے کہ فلاں جگہ تمہاری اور اس کی اکٹھی تصویر ہے، وہ تمہارے گھر والوں کو بھیج دی جائے گی۔
یہاں بحیثیت ’گھر والوں‘ کے آپ کا رول شروع ہوتا ہے۔ فقیر بالکل یہ نہیں کہتا کہ آپ بچے کی ہر سامنے آنے والی غلطی پہ سر ہلاتے ہوئے سائیڈ پہ ہو جائیں، وہ آپ کی اپنی تربیت، اپنا حساب کتاب ہے، آپ بہتر جانتے ہیں، لیکن یہ معاملہ بڑا نازک ہے۔ اگر آپ کی اولاد سوشل میڈیا پہ ہے، اس کے ہاتھ میں ایک عدد موبائل ہے اور اس کا سر دوسرے نارمل بچوں کی طرح ہر وقت موبائل میں ہی گھسا ہوا ہے تو آپ کو اسے اعتماد میں لینا ہو گا۔ آپ کو اسے یہ بتانا ہو گا کہ بیٹا ایسا کوئی مسئلہ کسی بھی وقت کھڑا ہوتا ہے تو سب سے پہلے تم نے اپنی ماں یا اپنے باپ کو بتانا ہے اور ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ مل کے چیزیں ٹھیک کر لیں گے۔ یہ بہت بڑے دل گردے کی بات ہے لیکن اپنی پچھلی عادتوں کو بھولتے ہوئے آپ کو یہ ایک رعایت خاص طور پہ بچوں کو دینی پڑے گی۔اس سے یہ نہیں ہو گا کہ بچے چوڑے ہو جائیں گے، وہ کل کوئی چاند چڑھا دیں گے، اس سے انہیں صرف یہ تسلی ہو گی کہ ابا یا اماں بیک پہ ہیں۔ اس کی مثال یوں لیں کہ پہلے زمانوں میں بچوں کو مغرب سے پہلے یا مغرب تک گھر واپس آنے کی تاکید ہوتی تھی۔ کتنی بار ہم لوگ نہیں بھی گئے لیکن پھینٹی نہیں چڑھی۔ جن بچوں کو پھینٹی چڑھتی تھی انہیں صرف یہ کہہ کر بلیک میل کیا جا سکتا تھا کہ تیرے ابا کو بتاؤں گا جو تو نے کل نائٹ میچ کھیلا تھا۔ وہ بے چارے منت ترلا کرتے تھے اور شکایت کی دھمکی دینے والا اپنا کوئی بھی کام نکلوا لیتا تھا۔ خیر معصوم دن تھے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس معاملے پہ ہر اماں ابا کو اپنی پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر بچے کو یہ اندازہ ہے کہ اس کے گھر تک کچھ بھی ایسا ویسا پہنچا نہیں اور گھر والوں نے اسے ٹانگ دینا ہے تو وہ نہ صرف بلیک میلنگ میں پھنس جائے گا بلکہ ایسا کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے جس میں بڑے سے بڑا نقصان ہو سکتا ہو۔
لڑکا ہے یا لڑکی، انہیں اتنا اعتماد دینے کی شدید ضرورت ہے۔ مان لیا کہ اپنا بچہ کسی کو ایسا نہیں لگتا لیکن یار ہمارے ماں باپ کو ہم بھی تو ایسے نہیں لگتے ہوں گے؟ ٹھیک ہے خدا نے عزت رکھی ہوئی ہے لیکن کتنے کام ایسے کیے ہوں گے جن سے اس وقت وہ منع کرتے تھے؟ برف کا گولہ کھانا، سینیما جانا، گھر پہ وی سی آر منگا کے فلمیں دیکھنا، پھر بعد میں کسی دوست کے گھر کوئی اور فلمیں دیکھنا، سگریٹ پینا، کالجوں کے چکر لگانا، بتائے بغیر ایک دن میں دوسرے شہر کا چکر لگا آنا، ہے کہ نہیں؟ تو اب فرق اتنا ہے کہ ٹیکنالوجی نے سہولتیں دی ہیں لیکن عذاب بھی اسی لحاظ سے بڑے ہو گئے ہیں۔مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آخر میں ایک چیز رہ جاتی ہے۔ آپ جوائنٹ فیملی میں ہیں، بہت گاڑھے ذات برادری کے رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں، آپ کو یہ خوف ہے کہ اگر بچے سے یہ کہہ بھی دیا تو لوگ کیا کہیں گے کہ فلاں ماں باپ اتنے مادر پدر آزاد ہو گئے ہیں کہ خود بچوں کو بولتے ہیں بابا جو مرضی منہ کالا ملو؟ اس میں اب دو باتیں ہیں۔ ایک تو سادہ سی یہ بات کہ اپنا بچہ/بچی، اپنا گھر آپ کی پہلی چوائس ہے، اگر ہے تو اسے کسی بھی بڑے مسئلے کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اتنا ظرف پیدا کرنا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہو سکتا ہے آپ ہی کو مثال بنا کر کچھ گھر اور بھی ایسی ہدایات جاری کر دیں۔ کسی بھی ممکنہ طریقے سے بچوں کو اپنے قریب ہونے کا احساس دلا دیں۔ انہیں یہ سمجھا دیں کہ جان پدر، جان مادر، جب تک ہم زندہ ہیں تیرے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہونے والا۔ تو ہماری سب امیدوں کا مرکز ہے لیکن تو بھی ایک انسان ہے۔ بچ کے چل اور جہاں ڈگمگا جا وہاں واپس آ، ہمارے بازو تیرے لیے کھلے ہیں۔ تو بس اتنی سی بات ہے۔
میں اپنے الفاظ دہراتا ہوں۔ اس سے یہ نہیں ہو گا کہ بچے چوڑے ہو جائیں گے، وہ کل کوئی چاند چڑھا دیں گے، اس سے انہیں صرف یہ تسلی ہو گی کہ ابا بیک پہ ہے یا اماں بیک پہ ہے۔ وہ زندگی کی بہت سی پیچیدگیوں سے بچ جائیں گے، وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے رک جائیں گے، وہ ہزار ہا نفسیاتی الجھنوں سے بچ جائیں گے اور بطور ماں باپ ان کا تعلق آپ سے زیادہ اعتماد والا اور مان والا ہو گا۔ خدا محفوظ رکھے، اپنی امان میں رکھے۔ آمین