رواں سال اسرائیل میں سیاحت کی موت واقع ہو گئی۔ اسرائیل میں سیاحوں کی تعداد ریکارڈ رہی ہے لیکن گذشتہ پانچ برس میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔
اسرائیلی اخبار ہاریتس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جبل مسعدہ شاید سب سے دردناک مثال ہے، جو موجودہ صورت حال کو بالکل واضح کرتی ہے۔
بحیرہ مردار کے کنارے واقع یہ پہاڑی مقام عالمی معیار کی دلکشی کا حامل ہے۔ یہ قدیم شاہی محلات، بہادری کی کہانیاں، دلکش مناظر، اور درجنوں قریبی ہوٹلوں اور سپاز کی خصوصیات رکھتا ہے۔
2019 میں مسعدہ نے آٹھ لاکھ 40 ہزار سیاحوں کی میزبانی کی لیکن 2024 میں یہ تعداد صرف 20 ہزار رہ گئی، یعنی 98 فیصد کمی۔
اسرائیل دنیا کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے، کیوں کہ یہاں تین ابراہیمی مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں، مگر سات اکتوبر 2023 کے بعد سے متعدد ملکوں نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسرائیل کا سفر نہ کریں، جب کہ ہوائی کمپنیوں نے اسرائیل کی پروازیں معطل کر دی ہیں، جب کہ ٹور کمپنیوں نے اسرائیل کے اپنی خدمات بند کر دی ہیں۔
اخبار ہاریتس کے مطابق قیصریہ میں اس سال 13 ہزار سیاح آئے جب کہ 2019 میں یہ تعداد پانچ لاکھ 71 ہزار تھی۔ بحیرہ مردار کے قریب قمران میں اس سال 15 ہزار سیاح آئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد چار لاکھ 47 ہزار تھی۔
بالائی جولان کے بانیاس نیچر ریزرو یا ہرمن سپرنگ نیچر ریزرو میں اس سال کوئی بھی نہیں آیا کیونکہ یہ بند پڑے ہیں۔
2024 میں اسرائیل کے نیشنل پارکس میں تقریباً ایک لاکھ سیاح آئے۔
پانچ سال پہلے کے عروج پر یہ تعداد 37 لاکھ تھی۔ 2019 کے اس خوش حال سال کی تمام امیدیں بکھر چکی ہیں۔ ایک سال سے جاری اسرائیلی جنگ جس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، کے ماحول میں اسرائیل میں تقریباً کوئی سیاح نہیں آ رہا۔
آخر کوئی کیوں ایک ایسے ملک میں سیاح بن کر آئے، جو جنگ کر رہا ہے، میزائل حملوں کا شکار ہے۔
ہزاروں اسرائیلی روزگار سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کے پاس صبح اٹھنے کا کوئی خاص مقصد بھی نہیں رہا۔ سیاحت مبہم تصور بن کر رہ گئی ہے۔ جنگ جاری رہنے کے باعث بس ڈرائیوروں کے پاس کوئی مسافر نہیں۔ ٹور گائیڈز کے لیے کوئی سیاح نہیں اور بیت المقدس کے جعفہ گیٹ سے مغربی دیوار کی جانب جانے والی گلی میں واقع تحائف کی دکانیں ویران پڑی ہیں۔
سیاحوں کے لیے مخصوص عجائب گھروں کے ملازمین کیا کر رہے ہیں؟ پارک کے ملازمین کا کیا حال ہے؟ ہولا نیچر ریزرو کے کارکن، جو مسلسل دوسرے سال بند ہے، کیا کر رہے ہیں؟ وہ ریستوران مالکان، جو سیاحوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے، اب خود کیا کھا رہے ہیں؟
کبز کالیہ کے قریب لڈو جنکشن پر اونٹ والا شخص کیا کر رہا ہے؟ اور تل ابیب کے ہوٹلوں کے لیے چادریں دھونے والے لانڈری کے مالکان کس طرح گزر بسر رہے ہیں؟
اس صورت حال کو اس ہفتے شیف حایم کوہن نے ہاریتس کو انٹرویو میں بخوبی بیان کیا۔ انہوں نے کہا: ’کوئی سیاح نہیں آ رہا۔ لوگ خوش نہیں ہیں۔ ریستورانوں کے کاروبار میں تقریباً 50 فی صد کمی آ چکی ہے۔ ان میں سے کئی ریستوران تو 30 فیصد کمی کے ساتھ بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔‘
تل ابیب میں اس سال 50 سے زائد بڑے ریستوران بند ہو چکے ہیں۔ تقریباً ہر ہفتے ایک ریستوران بند ہوا ہے۔ ریستوران بند ہونے کی وجہ سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہے۔
جنوری سے اکتوبر تک آٹھ لاکھ 24 ہزار سیاحوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ موجودہ تخمینے کے مطابق اس سال سیاحوں کی تعداد 10 لاکھ سے کم رہے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 میں 45 لاکھ سیاح اسرائیل گئے، اس کے برعکس پڑوسی ملک مصر میں اس سال ایک کروڑ 60 لاکھ سیاح آئے۔
اسرائیل کے محکمۂ سیاحت کے مطابق غزہ پر حملے کے ایک برس بعد اسرائیلی سیاحتی صنعت کو 18.7 ارب شیکل (پانچ ارب ڈالر) کا نقصان ہو چکا ہے۔
ٹورزم ریویو نامی ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں 30 لاکھ لوگ باہر کے ملکوں سے اسرائیل آئے، جب کہ 2024 میں صرف دس لاکھ۔ ان میں سے اکثریت رشتےداروں یا دوستوں سے ملنے آئے تھے، جب کہ صرف 28 فیصد نے کہا کہ وہ سیاحت کی غرض سے اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں۔ 2023 میں یہی تعداد 73 فیصد تھی۔
اسرائیل کی سیاحت کی صورت حال پر بات کرنے والے ہر شخص کی بات یوں لگتی ہے جیسے وہ کھلی قبر پر کھڑے ہو کر تعزیتی کلمات کہہ رہے ہوں۔ یہ بڑی اہم اور کامیاب صنعت دم توڑنے کے قریب ہے۔
سیاحتی ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو افسر یوسی فتل کا کہنا ہے کہ ریاست نے کبھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ کیا وہ سیاحت کی صنعت کو سنجیدگی سے چلانا چاہتی ہے یا نہیں اور یہ بات خاص طور پر جنگ کے دوران واضح ہو چکی ہے۔
فتل کے بقول: ’حکومت کو، خاص طور پر اس وقت جب ہم دم توڑ رہے ہیں، یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہاں ضرورت ’رحم کھاتے ہوئے موت دینے‘ کی ہے یا ایک نئی شروعات کی جس کے لیے عملی منصوبہ بنا کر طویل مدتی تعمیر نو کرنا ہو گی۔