خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کی تحصیل لوئر کرم کے علاقے اوچت میں گذشتہ روز سکیورٹی حصار میں جانے والی مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں، پولیس کے مطابق، 39 افراد جان سے گئے ہیں۔
قافلے پر نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے اندھا دند فائرنگ کی گئی جب یہ گاڑیاں کانوائے کی صورت میں پاڑہ چنار سے پشاور اور پشاور سے پاڑہ چنار جا رہی تھیں۔
اس حملے سے پہلے کانوائے کی صورت میں گاڑیوں کے جانے کا حفاظتی طریقہ کار کیوں شروع ہوا، اس کے پیچھے ایک طویل کہانی ہے۔
معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا؟
ضلع کرم کی تحصیل اپر کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں واقع گاؤں بوشہرہ اور احمد زئی کے لوگوں کے درمیان رواں سال ستمبر میں زمینی تنازع شروع ہوا اور دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے۔
احمد زئی گاؤں اور بوشہرہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے پر ان کی زمینوں میں مورچے بنانے کا الزام عائد کرتے تھے، اور اسی سے تنازع کا آغاز ہوا۔ اس دوران فریقین کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا، جس میں 31 افراد جان سے گئے۔
حالیہ کشیدگی سمیت ماضی میں ہونے والے زمینی تنازعات پر جھڑپوں کا آغاز عموماً بوشہرہ نامی گاؤں سے ہوتا ہے، جو ضلع کے دیگر علاقوں تک پھیل جاتا ہے۔
یہ گاؤں بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے، لیکن یہاں واقع زمین کے ایک ٹکڑے پر تنازع نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔
30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے، لیکن زمینی تنازع لڑائی کے بعد جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کے جرگے کی مدد سے اسے ختم کیا گیا تھا۔
یہ لڑائی ضلعے کے دیگر علاقوں تک پہنچ چکی تھی، اور بوشہرہ کے بعد لوئر کرم تحصیل کے گاؤں بالش خیل اور خارکلے میں بھی جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔
انجمن حسینیہ پاڑہ چنار کے سربراہ جلال حسین بنگش نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’یہ ذاتی زمینی تنازع ہے اور اسے دیگر علاقوں تک پھیلایا جاتا ہے۔‘
جلال حسین نے بتایا تھا کہ ’اس سے دونوں جانب جانی نقصان ہوتا ہے۔‘ انہوں نے اس وقت اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ذاتی زمینی تنازعات کو دیگر علاقوں اور اقوام تک نہیں پھیلانا چاہیے۔‘
اس کے بعد وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر کمشنر کوہاٹ نے ایک نمائندہ جرگہ تشکیل دیا تھا، اور جرگے کی کوششوں سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
مقبل علاقے میں گاڑی پر فائرنگ
ضلع اپر کرم کے علاقے مقبل کے پہاڑی علاقے کنج علیزئی میں رواں سال اکتوبر میں ایک گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی، جس میں چھ افراد جان سے گئے تھے۔
اس کے کچھ دن بعد سکیورٹی قافلے میں جانے والی گاڑی پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپس جا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے میں، پولیس کے مطابق، 11 افراد جان سے گئے تھے۔ یہ بھی کانوائے میں جانے والی گاڑیوں کا قافلہ تھا، جس میں تین گاڑیاں شامل تھیں۔
ان واقعات کے بعد ٹل-پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا، لیکن پانچ نومبر کو ایک گاڑی پاڑہ چنار کی طرف جا رہی تھی، اور اس پر فائرنگ کی گئی، جس میں دو افراد جان سے گئے۔
معاملہ شدید ہوتا جا رہا تھا، اور اسی وجہ سے ٹل-پاڑہ چنار روڈ تقریباً ایک مہینہ بند رہا، جس سے پاڑہ چنار کے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کانوائے میں سفر کرنے کی اجازت
سات نومبر کو پاڑہ چنار کے طوری اور بنگش قبائل نے پاڑہ چنار پریس کلب سے ایک پیدل مارچ کا اعلان کیا تھا اور تقریباً 25 کلومیٹر کا سفر کر کے ٹل-پاڑہ چنار روڈ پر کچھ وقت کے لیے دھرنا دیا تھا۔
اس کے بعد ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد، آٹھ نومبر کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کانوائے (سکیورٹی گاڑیوں کے حصار میں) میں جانے کی اجازت مل گئی۔
اجازت ملنے کے بعد روزانہ دو تین کانوائے پاڑہ چنار سے پشاور اور پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں سے پاڑہ چنار جانے والے مسافر سکیورٹی حصار میں قافلے کی صورت میں جاتے تھے۔
اسی کانوائے پر گذشتہ روز حملہ کیا گیا، جس میں 39 افراد جان سے گئے۔
اس سے پہلے رواں سال سب سے زیادہ اموات جولائی میں ہونے والے جھڑپوں میں ہوئی تھیں، جن میں 42 افراد جان سے گئے تھے اور 183 زخمی ہوئے تھے۔
اس لڑائی کے بعد بھی ایک جرگہ تشکیل دیا گیا تھا، اور جرگے نے دونوں فریقین کے مابین صلح کر کے فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔