شادی کے بعد امی پشاور سے ملتان آئیں۔ ایک دن آندھی آئی تو امی کہتی ہیں میں رو پڑی۔ تھوڑی دیر پہلے سارا گھر صاف کیا تھا، برآمدہ اور صحن دھویا تھا، ملتان کی آندھی جو آئی تو ساری صفائی صاف کر گئی۔ دوبارہ ہر چیز پہ ایک تو مٹی پڑ گئی اور پھر پہلے سے کہیں زیادہ موٹی تہہ تھی۔ تو امی جب کہتی تھیں کہ میں رو پڑی تو میں ایک چھوٹا بچہ ہوتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ اس میں رونے کی ایسی کیا بات تھی؟ امی دوبارہ صاف کر لیتیں۔
امی یہ واقعہ سنانے کے بعد آج بھی ہنس پڑتی ہیں۔ میں اُس وقت بھی ہنستا تھا، ان کے ساتھ اب بھی ہنس لوں گا لیکن آج یہ رونا سمجھ میں آ گیا۔
شہر بدلا، اکیلا رہا تو استاد بہت کچھ سمجھ میں آ گیا۔ ایسا آیا کہ اب میری ہر پرانی تھیوری بے وزن ہو کے خلا میں ڈول رہی ہے۔ ارادوں کے ٹوٹنے سے خود کو پہچاننے والے اولیا ہوتے تھے، ہم خاکی لوگ تو اپنے خیال اپنے نظریے غلط ہونے پر ہی اپنی اوقات جان لیتے ہیں، ارادے باندھنے جیسی ہمت کہاں۔
قصہ یوں ہوا کہ فقیر جب دوسرے شہر روزی کمانے آیا تو خدا کے ایک مہربان بندے نے ایسی جگہ مہیا کر دی جو رہنے کا بہترین آسرا ہے۔ بیٹی کی پڑھائی تھی تو بیوی بچہ ساتھ لانا مشکل تھا، اکیلے رہنا شروع کر دیا۔ اکیلے آدمی کا بھی پھیلاوا بہرحال ہوتا ہے۔ صفائی کا معاملہ ہر دوسرے دن پیش آتا ہے، اس سے بچت ممکن نہیں۔ تو کل رات کچن صاف کیا اور شیشے کی طرح چمکا دیا۔ پچھلے ہفتے جھاڑ پونچھ کرلی تو کمر تھوڑی ناراض تھی، کچن صاف کرتے ہوئے پھر احتجاج کیا تو اسے دوا پیش کر دی۔ پھر یوں ہوا کہ وہ احتجاجی کمر اور فقیر دونوں سوگئے۔
صبح اٹھ کر پتہ چلا کہ رات ایسی بارش ہوئی جو مکمل صفائی پر پانی پھیر گئی۔ کچن کے مکمل سلیب اور فرش، ہر جگہ پانی تھا۔ سلیب صلیب نظر آتا تھا اور فرش فراش کرنے پہ بضد تھا۔ تب اس چھوٹے سے حسنین جمال کو جا کر سمجھایا کہ بابو، امی اس لیے روئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو ایک مثال تھی۔ آس پاس دیکھتا تھا تو دنیا کی 80 فیصد عورتوں سے یہ شکایت ہوتی تھی کہ کھانا پکاتی ہیں تو شور بہت کرتی ہیں۔ موڈ آف ہو جاتا ہے، گرمی لگنے لگتی ہے، پھر پکا کے فوراً سامنے رکھ دیں گی لیکن خود نہیں کھائیں گی کہ بھوک مر گئی ہے۔ ابھی نہیں کھانا، بعد میں کھا لیں گے۔ میں اس بات کو نخرہ سمجھتا تھا۔ یہاں آیا تو صرف اپنے لیے روٹی سالن بنانا شروع کیا۔ یار قسم پیدا کرنے والے کی، واقعی موت پڑ جاتی ہے۔ سالن بن جائے تو اس کی خوشبو اور گرمی سے پیٹ بھر چکا ہوتا ہے، روٹی پک جائے تو دھوئیں سے بھوک مر جاتی ہے۔
ایک بندے کے لیے بنانا ہو، یعنی صرف اپنے لیے کرنا ہو تو پھر بھی تھوڑا آسرا ہوتا ہے ایک آدھ روٹی بنا لی، دوسری بھی چلو ہو گئی، لیکن جہاں دوسری سے تیسری روٹی لگانی پڑے واللہ بھوک ختم ہو جاتی ہے بلکہ توا بھی پرایا لگنے لگتا ہے! اور تب میں نے جانا کہ اس میں ناراضگی کا دخل نہیں ہوتا۔ یہ قدرتی عمل ہے۔ خدا جانے کون سے ہارمون اس میں جلتے ہیں جو ایک بھوکے انسان کا پیٹ خوشبو اور دھوئیں سے بھر دیتے ہیں لیکن ہوتا بالکل یہی ہے۔ تو کھانا پکانے والے سے اسی وقت بیٹھ کر کھانے کا کہنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کبوتر کو گردن سے پکڑ کر اس کی چونچ میں زبردستی دانہ ڈالا جائے۔
پونی بنائے چھوٹی بچیاں مجھے بڑی اچھی لگتی تھیں۔ اکثر میری بیٹی آئلہ جب چھوٹی تھی تو ماں اس کی پونی کس کر بنا دیتی، تھوڑی دیر میں دیکھتے تو وہی کھلے کے کھلے بال۔ ہم لوگ بالوں پر اسے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے، اوما بہت زیادہ غصے میں آتی تو کہہ دیتی کہ پھر چانٹے کھول لیے، ابھی باندھے تھے تمہارے سارے بال! تو یوں ہوا کہ جب میں یہاں آیا تو سر کی دائیں طرف ایک چھوٹا سا دانہ نکل آیا۔ پھر وہ بڑا ہو گیا۔ پہلے میرے بال فوجی کٹ ہوتے تھے۔ دانے کی وجہ سے بڑھانے شروع کر دیے کہ وہ بالوں میں چھپ جائے گا۔ دوا دارو چلتے رہے، چار پانچ مہینے بعد دانہ آخر ختم ہو گیا لیکن بالوں کی وجہ سے محسوس ہوا کہ بھائی جو اپنا گنجا پن ہے وہ کچھ کم لگتا ہے، تو بال بڑھنے دیے۔ ایک دن اتنے بڑے محسوس ہوئے کہ پونی بن سکتی تو بنا لی۔ طبیعت ہری ہو گئی۔ تب فقیر نے یہ جانا کہ بچیاں اپنے بال کھلے کیوں رہنے دیتی ہیں۔ کس کے بال باندھنے سے ایسا گندا درد ہوتا ہے جو سر سے نیچے اتر کے گردن اور کندھوں تک پھیل جانے میں خاص مہارت رکھتا ہے۔ بندہ خود پونی بنائے تو تھوڑا ہلا جلا کے سیٹ کر لیتا ہے لیکن چھوٹی بچیاں؟ ان کا مسئلہ کیا ہے، وہ اب سمجھ میں آیا۔
اسی طرح مجھ سمیت وہ سارے مرد جو لمبے بالوں کی تعریف میں شاعریاں کرتے ہیں، گانے گاتے ہیں، گھٹاؤں سے تشبیہہ دیتے ہیں انہیں دو تین سال اگر اپنے بال بڑھانے پڑ جائیں تو یقین کریں دماغ ٹھکانے آ جائے گا۔ ابے نہا لیا تو سوکھتے نہیں، سکھا لیا تو منہ پہ آتے ہیں، گردن پہ کاٹتے ہیں، کھانا بناؤ تو چولہے سے بچاؤ، لیٹو تو بال پہلے سنبھال کے لیٹو، بیٹھو تو پہلے انہیں پروٹوکول دو، باہر جانے کے لیے باندھو تو گیلے بندھ نہیں سکتے کہ سر میں درد کریں گے، نہ باندھو تو کہنے والے کہیں گے کہ حسینہ نہا کر بال کھول کے بازار میں آ گئی۔
یاد آیا، مجھے شکایت ہوتی تھی کہ بیٹی کا شیمپو بہت جلدی ختم ہوتا ہے۔ وہ بھی سارا کیس اب سمجھ آ گیا۔ اپن لوگوں کے تین چار انچ سے لمبے بال نہیں ہوتے، ادھر کئی فٹ کا حساب ہوتا ہے۔ ہم چائے کے چمچ جتنے شیمپو سے کام چلا سکتے ہیں لڑکی غریب کیا کرے، اسے تو نہ صرف بال دھونے ہیں بلکہ انہیں ’گھنا اور چمک دار‘ بھی دکھانا ہے۔ اسی بیچ فقیر کنڈیشنر کی جغرافیائی اہمیت بھی سمجھنے کے قابل ہوگیا۔
سوچیں کہ آپ کے بال جو کئی سال کی محنت کے نتیجے میں اتنے بڑے ہوئے ہیں وہ نہاتے ہوئے آپس میں ہی الجھ جائیں؟ کاٹنے پڑیں، یا توڑنے پڑیں؟ تو خیر یہ شیمپو اور کنڈیشنر کی سائنس یہ بھی سکھا گئی کہ عورتیں کاسمیٹکس استعمال نہ کریں تو ان کی مرضی ہے لیکن جو کریں گی تو یہ تقریباً ان کی مجبوری ہوتی ہے، ماں قسم ہم تم ان پہ تنقید نہیں کر سکتے میرے جانو پڑھنے والو!
یہاں آ کے مجھے سمجھ آیا کہ برتن دھونے والے پاؤڈر اور لیکوئڈ میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کیا ایک ایسا مرد جس نے روزانہ کی بنیاد پہ برتن نہ دھوئے ہوں، کبھی یقین کر سکتا ہے کہ ڈش واشنگ پاؤڈر باقاعدہ ہاتھوں پہ خارش کر سکتا ہے، ناخنوں میں چبھتا ہے، کوئی خراش یا زخم ہو تو اسے خراب کر سکتا ہے اور ہاتھوں کی جلد کا الگ ستیاناس کرتا ہے؟ کرتا ہے سرکار برابر کرتا ہے۔ اگر خدا نے آپ کی جیب میں اتنی گنجائش رکھی ہے تو گھر کی عورتوں کی اس بات کو نخرہ نہ سمجھیں، یار واقعی لیکوئڈ ڈش واشر سے برتن دھونے اور پاؤڈر سے دھونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلکہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ان غریبوں کو کم از کم دستانے لا دیں ربڑ کے، فقیر تو صرف اپنے برتن دھوتا ہے، جس نے پانچ بندوں کے دھونے ہیں وہ پھر آپ کے لیے ناخن ہرگز نہیں رکھ سکتی! اور ہاں، برتن دھونے سے بھی کمر میں ایک روحانی قسم کا درد ہوتا ہے، عورتیں جھوٹ نہیں بولتیں۔
یاد رکھیے کہ باتھ روم سرف سے نہیں دھویا جا سکتا۔ فقیر نے دھویا تھا اور بس پھر گھیسیاں کھاتا پھرتا تھا۔ یہ جو آپ ہر مہینے سودے میں چار رنگ کے ٹوائلٹ کلینر دیکھتے ہیں وہ ٹائلوں والے باتھ روم کے لیے ضروری ہیں۔ آپ کے اماں باوا کے زمانے میں اگر ٹائلوں والے باتھ روم نہیں تھے تو ان کی صفائی بھی کلینر کے بغیر ہو جاتی تھی، اب بہرحال کموڈ الگ چیز سے صاف ہوگا اور ٹائلیں الگ چیز سے، گٹر بند ہو تو وہ تیسرے سے کھلے گا اور یہ واجب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سارے کام ایک تیزاب سے ہو جائیں تو کبھی خود ٹرائی کیجیے، مالک بڑا مہربان ہے، سمجھ آپ کو بھی آ ہی جائے گی۔
تنکوں والے جھاڑو اور پھول جھاڑو کی انسانی ارتقا میں اہمیت نیز دونوں میں واضح فرق اور نوعیت استعمال کا پرچہ ترکیب بھی یہیں آ کر پتہ چلا۔ یہ بھی علم ہوا کہ بھلے گھر میں ویکیوم کلینر موجود ہو، جھاڑوؤں کی اپنی ایک اہمیت ہے اور ان کا مقام ان سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ پھر وہ جو تین سائز کے وائپر آتے ہیں، ان کی بھی سمجھ آ گئی۔ دنیا بڑی چالو جگہ ہے یارو، مطلب صفائی بھی ایک اوزار سے نہیں ہو سکتی، واقعی نہیں ہو سکتی!
اب بچ گیا کپڑے دھونا اور استری کرنا۔ یہ بہت ہی کوئی نیکسٹ لیول تکلیف دہ کام ہے، اگر آپ یقین کریں۔ کپڑے اپنے ہوں یا دوسروں کے، انہیں دھونا، نچوڑنا، سکھانا، انتہائی واہیات اور ٹائم ضائع کرنے والے کام ہیں۔ واشنگ مشین ہے، ڈرائر ہے تو اس کو لگانا اور سمیٹنا، اس میں بھی ٹھیک ٹھاک رائتہ پھیلتا ہے۔ آپ مانیں گے یہاں میری بھی بس ہوگئی؟ کلم کلے ایک آدمی کے کپڑے، وہ بھی نہ دھلتے ہیں نہ استری کر سکتا ہوں۔ گھر کے ہر پھیرے میں ساتھ جاتے ہیں۔ دھل گئے تو یہاں لا کے استری باہر سے کروا لیے۔ ویسے کپڑے دھونے سے بھی زیادہ بور کام استری کرنا ہے۔ مطلب کوئی کام اور نہ ہو تو بھی یہ کام بہرحال وہ کام ہے جسے کہتے ہیں کم جوان دی موت اے!
تو بھائی یقین کیا جائے کہ فقیر ان سارے تجربوں سے گزر کے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ گھرداری میں شامل کوئی بھی کام آسان نہیں ہے۔ چنگی بھلی ورزش بھی ہے اور ذہنی فٹیگ الگ سے ہے۔ اگر آپ کے اردگرد کوئی بھی خاتون آپ کے یہ سارے کام کر دیتی ہیں اور موڈ ان کا بعد میں آف رہتا ہے، تو یہ قدرتی بات ہے۔ بالکل اللہ میاں کی طرف سے ہے۔ اس پر صبر کی بجائے شکر کیجیے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی خاتون کام کرنے گھر آتی ہیں، بے شک وہ اس کے پیسے لیتی ہوں، وہ بھی اتنے پیسے نہیں لے رہی ہوتیں جتنے آپ کے درد سر کم کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے بھی ایک گوشہ ہمدردی کا رکھیں اور اگر اس ساری بات میں بھاشن بازی کی فیلنگ آ رہی ہے اور آپ ’ہونہہ‘ کہنے والے ہیں تو صرف ایک بار، پورے ایک ہفتے کے لیے سب کچھ خود کرکے دیکھیں۔ خدا شفا دینے والا ہے!