ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جنسی ہراسانی، جنسی تعصب اور حمل سے متعلق امتیازی سلوک گارمنٹ انڈسٹری میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
2 ہزار ارب (1.9 ٹریلین) پاؤنڈ پر مشتمل کپاس کی یہ صنعت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو ملازمت فراہم کرتی ہے، جن میں سے اکثر خواتین ہیں جبکہ یہی صورتحال جوتے بنانے والی فیکٹریوں اور کپاس کے کھیتوں میں بھی نظر آتی ہے۔
پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں کام کی جگہوں پر جنسی ہراساں کیے جانے کے حوالے سے مخصوص قوانین موجود ہیں، تاہم 59 ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف کسی قسم کے قوانین موجود نہیں ہیں۔
لیکن رپورٹ کے مطابق جن جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف یہ قوانین موجود ہیں، وہاں بھی اکثر اوقات اُن پر پوری طرح سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
پاکستان اور بھارت میں گارمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والے ملازمین نے محققین کو بتایا کہ انہیں جنسی ہراسانی کے قوانین کے تحت اپنے حقوق اور آجرین کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کام کی جگہ پر کوئی تربیت دی گئی۔
ہیومن رائٹس واچ سے تعلق رکھنے والی ارونا کشیپ کے مطابق یہ دل شکن ہے کہ خواتین ان ممالک میں اپنی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جہاں جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین عشروں سے موجود ہیں اور اگر ان پر مناسب طریقے سے عملدرآمد کروایا جائے تو گارمنٹ انڈسٹری میں خواتین عزت و وقار کے ساتھ کام کرسکتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق ملازمین کے لیے سزا کے خوف کی وجہ سے یہ مشکل ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی شکایت کرسکیں کیونکہ فیکٹریوں میں شکایت کرنے والے ملازمین کو ہی اُلٹا یا تو نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے یا پھر ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی جاتی۔
رپورٹ کے مطابق مختصر کنٹریکٹ پر رکھے گئے یا روزانہ کی بنیاد پر اجرت حاصل کرنے والے ملازمین کو نوکری سے نکالے جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے یا پھر ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی جاتی۔
ارونا کشیپ کے مطابق ملازمین نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ انتقامی کارروائی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ فیکٹری انتظامیہ اچانک سے ملازمین کو ’غیر فعال‘ پاتی ہے اور ملازمت سے نکال دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا، ملازمین کو اُس وقت تک ہراساں کیا جاتا ہے جب تک وہ استعفیٰ نہ دے دیں، انہیں اوورٹائم نہیں دیا جاتا، ان کی تنخواہ میں سے کٹوتی کردی جاتی ہے یا پھر فیکٹری میں ان کا اُس جگہ پر تبادلہ کردیا جاتا ہے جہاں وہ موجودہ تنخواہ سے کم رقم کما پاتے ہوں یا پھر اُسی گروپ کی کسی دوسری فیکٹری میں ان کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جہاں آنے جانے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین ملازمین کو اپنی صنف کی وجہ سے مخصوص چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں مختلف ممالک میں فیکٹریوں میں رائج گالم گلوچ کا رجحان بھی شامل ہے۔
مختلف ممالک میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین نے بتایا کہ کام کی جگہوں پر ان کی کئی مرتبہ بے عزتی کی گئی اور انہین ’کتا‘ اور ’گدھا‘ یا اسی طرح کے دیگر الفاظ بھی سننے پڑے۔
کچھ خواتین ملازمین نے سپروائزروں اور پروڈکشن مینیجروں کی کچھ مثالیں بھی شیئر کیں، جب انہیں بیت الخلاء جانے پر بھی شرمندہ کیا گیا اور ان کی بے عزتی کی گئی۔
بھارت میں کچھ خواتین ملازمین نے بتایا کہ لائن سپروائزر، جو زیادہ تر مرد ہوتے ہیں، اُن سے ان کی جنسی زندگی کے حوالے غیر مناسب سوال کرتے ہیں، جب وہ بیت الخلاء جانے کے لیے یا مخصوص دنوں میں کچھ آرام کے لیے وقفہ طلب کرتی ہیں۔
نازیبا سلوک کی دیگر مثالوں میں مینیجرز کی جانب سے اُن خواتین ملازمین کا تبادلہ کیا جانا بھی شامل ہے، جو اُن شعبوں میں اوورٹائم سے انکار کردیتی ہیں، جہاں مردوں کی تعداد زیادہ ہو اور جہاں انہیں ہراساں کیے جانے کا خوف ہے۔
ملازمین کے مطابق انہیں اُس وقت زیادہ گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب پیداواری سیزن اپنے عروج پر ہوتا ہے، تاکہ انہیں جلدی جلدی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
کمبوڈیا میں بھی خواتین ملازمین نے مرد مینیجروں اورساتھیوں کی جانب غیرمناسب تبصروں، حرکات و سکنات اور دیگر طریقوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
اس تحقیق کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ حکومتی قواعد و ضوابط کی غیر موجودگی کی وجہ سے بہت ساری برانڈز، فیکٹریوں کی صورتحال کی نگرانی کے لیے سماجی آڈٹ پر بھروسہ کرتی ہیں، لیکن ان آڈٹس کی مدد سے جنسی ہراسانی یا کام کی جگہوں پر جنسی تشدد کی دیگر اقسام سے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا۔
ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کی آڈٹ کرنے والی بڑی کمپنیوں کی 50 سوشل آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ یہ سوشل آڈٹ اس طرح سے نہیں ڈیزائن کیے گئے کہ ان سے صنفی تشدد یا ہراساں کیے جانے کے حوالے سے معلومات حاصل کی جاسکیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کپڑے بنانے والی ان بین الاقوامی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ کام کی جگہوں پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے خلاف انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کنونشن کی پاسداری کریں۔
ارونا کشیپ کے مطابق حالیہ ’می ٹو‘ مہم نے گارمنٹ انڈسٹری کو اس بات پر مجبورکیا ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے پر مزید غور کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ایسے قوانین کو خواتین ملازمین، مقامی یونینوں اور خواتین اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی مشاورت سے ڈیزائن کیا جائے، تاکہ ان افراد کی تجاویز کے ساتھ کوئی حل سامنے آسکے۔