ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی، چھاؤں ہے کبھی، کبھی ہے دھوپ زندگی
ہر پل یہاں جی بھر جیو، جو ہے سماں کل ہو نہ ہو
چاہے جو تمہیں پورے دل سے، ملتا ہے وہ مشکل سے
ایسا جو کوئی کہیں ہے، بس وہی سب سے حسیں ہے
اس ہاتھ کو تم تھام لو، جو ہے سماں کل ہو نہ ہو
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ان سطور میں زندگی کا کوئی فلسفہ ہے؟ ہے۔ کیا کوئی مشکل یا بھاری لفظ استعمال ہوا؟ نہیں۔ بس فلم کے شاعر کا یہی کام ہے کہ آسان اور سیدھے سادے لفظوں میں گہری بات کرے۔ ایک راہ چلتے آدمی کے دل پہ دھن دستک دے اور الفاظ بغیر کوشش زبان پہ چڑھ جائیں۔ چھوٹے اور ہلکے لفظوں سے بڑی اور گہری بات کہنا ہی فنکاری ہے اور جاوید اختر اس فن سے اچھی طرح واقف ہے۔
فلم کے سکرپٹ اور مکالمے لکھتے لکھتے یش چوپڑا کے اصرار پہ جاوید صاحب گیت لکھنے لگے۔ جب تک مکالمے لکھے تو ہر طرف انہی کی گونج تھی، پھر گیت نگاری کی طرف آئے تو ہر دل میں دھڑکن بن کے بس گئے۔ جاوید اختر نے تقریباً 110 فلموں کے گیت لکھے۔ ان میں سے بہترین فلموں کا انتخاب مشکل کام ہے اور بہترین گیت تو اس سے بھی زیادہ مشکل، تو کیوں نہ زیادہ مشکل کام کرنے کی کوشش کی جائے۔
1 یہ کہاں آ گئے ہم یوں ہی ساتھ ساتھ چلتے (سلسلہ: 1981)
تو بدن ہے میں ہوں چھایا تو نہ ہو تو میں کہاں ہوں
مجھے پیار کرنے والے تو جہاں ہے میں وہاں ہو
رومانس سے بھری اس فلم کے ایک ایک گیت سے محبت بوندوں کی صورت ٹپکتی ہے لیکن یہ گیت سنیں تو لگتا ہے پیار کی برسات ہو رہی ہے اور سننے والے بھیگتے چلے جاتے ہیں۔ شیو ہری کی مدھر دھن، جاوید اختر کے الفاظ، امیتابھ اور ریکھا کی کیمسٹری، لتا کی آواز اور یش چوپڑا کی خوبصورت پکچرائزیشن سماں باندھ دیتے ہیں۔
اس گیت کی ایک لائن تھی ’ہوئی اور بھی ملائم میری شام ڈھلتے ڈھلتے‘ اس میں لتا نے ایسی نرمی اور نزاکت سے ملائم کو ادا کیا کہ اگر کوئی شخص اس لفظ کا مطلب نہیں بھی سمجھتا تو ادائیگی سے کیفیت ضرور جان لے گا۔ لتا جی کے گلے سے بہتر ملائمت اور نرمی کون جانتا ہے؟
اسی گیت سے جاوید اختر کی فلمی شاعری کا سلسلہ شروع ہوا۔
2 ’دیکھا اک خواب تو یہ سلسلے ہوئے‘
یہ بھی فلم سلسلہ کا مشہور گیت ہے۔ بقول جاوید اختر یہ ان کے کیریئر کا پہلا فلمی گیت ہے۔
3 ساگر کنارے دل یہ پکارے (ساگر: 1985)
لہروں پہ ناچیں کرنوں کی پریاں، میں کھوئی جیسے ساگر میں ندیاں
تو ہی اکیلی تو کھوئی نہیں ہے، ساگر کنارے دل یہ پکارے
تو جو نہیں تو میرا کوئی نہیں ہے، ساگر کنارے دل یہ پکارے
ایس ڈی برمن کی دھن ’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘ سے متاثر ہو کر دس سے زیادہ گیت لکھے گئے لیکن روشن اور آر ڈی برمن سے بہتر کسی دوسرے کا گیت نہیں۔ ڈمپل کپاڈیہ کی ساگر جیسی آنکھوں اور شام جیسی سیاہ زلفوں پہ اس فلم کا ایک اور خوبصورت گیت بھی سدا بہار ہے۔
4 چہرہ ہے یا چاند کھلا ہے زلف گھنیری شام ہے کیا / ساگر جیسی آنکھوں والی یہ تو بتا تیرا نام ہے کیا
یہ بھی فلم ساگر کا گیت ہے۔
5 اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا (لو سٹوری: 1942)
جیسے صبح کا روپ، جیسے سردی کی دھوپ / جیسے بینا کی تان، جیسے رنگوں کی جان / جیسے بل کھائے بیل، جیسے لہروں کا کھیل / جیسے خوشبو لیے ٹھنڈی ہوا / اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
دیکھتے ہی کسی پہ دل ہار دینا زندگی کا معمول ہے۔ ایک لڑکا ایک لڑکی کو دیکھ کر کیسا محسوس کرتا ہے؟ یہ گیت ایسی ہی کیفیت کا بیان ہے۔ خوبصورت تشبیہات اور استعارے ہر دل کی آواز بن جاتے ہیں۔
6 کچھ نہ کہو کچھ بھی نہ کہو
یہ بھی لو سٹوری 1942 کا گیت ہے۔ اس گیت کی نغمگی کا لطف آر ڈی برمن کی نشیلی دھن نے دوبالا کر دیا ہے۔
یہ آر ڈی برمن کی یہ آخری فلم تھی۔ جاتے سمے وہ پوری فلم انڈسٹری کے منہ بند کروا گیا جس کے خیال میں وہ ختم ہو چکا تھا۔
7 پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے (2000: ریفوجی)
پنچھی ندیا پون کے جھونکے، کوئی سرحد نہ انہیں روکے
سرحد انسانوں کے لیے ہے، سوچو تم نے اور میں نے
کیا پایا انساں ہو کے، پنچھی ندیا پون کے جھونکے
پاکستان اور انڈیا کی حالات کے پس منظر میں لکھا یہ گیت خوبصورت دھن اور سادہ لفظوں میں دل کے ساتھ دماغ پہ بھی دستک دیتا ہے۔ انسان نے سرحدیں بنا کے کیا حاصل کیا؟ اگر کچھ نہیں تو پھر یہ سب ڈراما کا ہے کا؟ فطرت دونوں جانب ایک جیسی ہے آزاد اور بے ساختہ لیکن تہذیب کی گٹھڑی سر پہ اٹھائے انسان جیسا بے ڈھنگا جانور کوئی نہیں!
8 او پالن ہارے (لگان: 2001)
پچھلے 20 سال میں شاید ہی کوئی فلم اپنی مدھر گیتوں میں اس فلم کے سامنے ٹھہر سکے۔ لگان اے آر رحمان کا میگنم اوپس تو ہے ہی جاوید اختر کا جادو سر چڑھ کے بولا۔
9 متوا سن متوا تجھ کو کیا ڈر ہے رے
لگان کے تمام گیت بہت عمدہ ہیں اور پالن ہارے کا ذکر اوپر ہو چکا، لیکن اسی فلم میں متوا سن بھی اپنا جواب نہیں رکھتا۔
10 کبھی الوداع نہ کہنا ( کبھی الوداع نہ کہنا: 2006)
جتنی تھیں خوشیاں سب کھو چکی ہیں بس ایک غم ہے کہ جاتا نہیں
سمجھا کہ دیکھا بہلا کے دیکھا دل ہے کہ چین اس کو آتا نہیں
آنسو ہیں کہ ہیں انگارے آگ ہے اب آنکھوں سے بہنا، کبھی الوداع نہ کہنا
بچھڑتے پریمی جوڑے کے دلوں میں لگی آگ جاوید اختر نے پوری شدت کے ساتھ کاغذ پہ اتاری ہے۔ شنکر احسان لوئے کی موسیقی سونو نگم اورایلکا نے بہت ڈوب کر گایا اور یہ گیت امر ہو گیا۔ اس فلم میں شفقت امانت علی کا گیت متوا بھی اپنا جواب نہیں رکھتا۔