متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی کے اندر شدید اختلافات کی تردید مسلسل کئی روز کرنے کے بعد آخرکار ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بول پڑے اور تصدیق کی کہ نہ صرف پارٹی کے اندر اختلافات ہیں بلکہ اب ایم کیو ایم ’نشان عبرت‘ بن گئی ہے۔
’موجودہ پارٹی نہ تو ایم کیو ایم ہے اور نہ ہی ایم کیوایم پاکستان، بلکہ اب یہ پارٹی چوں چوں کا مربہ ہے۔‘
انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اب پارٹی دو صفوں میں بٹ گئی ہے اور ایم کیو ایم حیدرآباد اور ایم کیو ایم کراچی میں تقسیم ہو چکی ہے۔
’جو سربراہ سب کا احتساب کر رہا تھا، پارٹی کا بھلا چاہ رہا تھا، وہ کسی سے برداشت نہیں ہوا۔ پہلے پارٹی کے وڈیروں نے مجھ سے سربراہی لی اور پھر رکنیت معطل کی، اب خالد مقبول کو بھی فارغ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ مجھے مجبور کیا گیا کہ میں پی آئی بی میں لوگوں کو جمع کروں۔ سارا معاملہ قابضین کے مفادات کا ہے۔ مصطفی کمال نے بھی یہی بات کی ہے۔‘
واضح رہے کہ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر موجود پارٹی کارکنان سے ٹیلیفون پر خطاب کیا گیا جس میں انہوں نے اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔ اس خطاب کے بعد ’پاکستان مخالف نعرے لگانے، میڈیا ہاؤسز پر حملے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور اشتعال انگیز تقریر کرکے پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنے‘ کے الزام میں الطاف حسین اور دیگر رہنماؤں سمیت موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کے 1500 سے زائد کارکنان کو نامزد کرتے ہوئے 116 ایف آئی آر درج کی گئیں اور ان کیسوں میں 60 سے زائد گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ یہ کیس کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ہفتے کو ایم کیو ایم رہنماؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے دو مقدمات کی سماعت کے دوران فاروق ستار،عامر خان، قمر منصور، شاہد پاشا، گلفراز خٹک و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ کیس کی اگلی سماعت یکم فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاروق ستار نے مزید کہا کہ ان کے خلاف یہ کیس بلاوجہ چلایا جارہا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔
’22 اگست کے بعد رابطہ کمیٹی پاکستان قائم کی گئی تھی اور اسی وقت ایم کیو ایم میں بگاڑ اور خرابیوں کو دور کرنے کا آغاز ہوا تھا۔ مایوس اور ناراض لوگ واپس آرہے تھے مگر پارٹی کے وڈیروں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ رابطہ کمیٹی فوری تحلیل کی جائے اور انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کروائے جائیں۔
خالد مقبول صدیقی کے استعفی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’نیب کے مقدمات والے معاملے کو روکنے کے لیے وزارتوں کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ ایم کیو ایم حیدرآباد نے ایم کیو ایم کراچی پر دباؤ ڈال کر خالد مقبول کو مستعفی کرایا تاکہ کسی اور کو وزارت دلوائی جائے۔ خالد مقبول صدیقی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ خالد مقبول کو پارٹی کی سربراہی سے مستغفی ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آج فیصلہ کریں کہ فروغ نسیم ایم کیو ایم میں ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو استعفی دیں۔‘
’ایک وزیر وزارت کے مزے لے رہا ہے اور ایک کو مستغفی کروایا گیا ہے۔ آپ کو وزارت قبول ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مینگل نے وزارت قبول نہیں کی، سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور ان کے مطالبات بھی مانے گئے۔ بلوچستان کو ایمنیسٹی ملی، لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔‘
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کے لیے 162 ارب کی خیرات کا اعلان کیا گیا جس میں سے ایک ٹکا بھی نہیں ملا۔ کراچی کا اصل مسئلہ پانی کی قلت کا ہے، یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو فسادات ہوں گے۔‘
پارٹی کو بچانے کے لیے انھوں نے تجویز دی کہ ’اچھے پڑھے لکھے صاف ستھرے لڑکوں کے ہاتھ میں پارٹی دی جائے اور لفنگوں سے جان چھڑائی جائے تاکہ متحدہ صحیح معنوں میں متحدہ بنے۔‘
جمعے کو احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے الزام عائد کیا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے اندر اختلافات شدید ہوگئے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان اب ایم کیو ایم حقیقی بن گئی ہے جس کے اندرونی اختلافات کے باعث اب ایم کیو ایم والے خالد مقبول صدیقی کو ہٹاکر امین الحق کو پارٹی کا سربراہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے خالد مقبول صدیقی کے استعفے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ استعفے کے نام پر ڈرامہ کیا جا رہا ہے نیز ان کا کہنا تھا کہ عامر خان نے خالد مقبول صدیقی کو مجبور کیا تھا کہ وہ وفاقی وزارت سے استعفی دیں۔
اس کے جواب میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے ایم کیو ایم کے اندر اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایک کیو ایم پاکستان میں کوئی اختلاف نہیں ہے مصطفی کمال ایسے بیان دے کر صرف سیاست کرہے ہیں۔ اور وہ اس طرح کے سیاست میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قبل ازیں 12 جنوری کو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے استعفی کا اعلان کیا گیا جس کے دوسرے ہی روز وفاقی وزیر اسد عمر ایم کیو ایم پاکستان کو منانے بہادرآباد گئے تھے تاہم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کردیا اور 16 جنوری کو اپنا استعفی بھی وزیر اعظم عمران خان کو ارسال کردیا تھا۔