محمد حسین وانی، ان کے اہلِ خانہ اور گاؤں کے دیگر لوگوں کے ساتھ اپنے گھر کے نیم روشن کمرے میں بیٹھ کر 29 نومبر 2019 کی رات کی داستان سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس رات ان کے 19 سالہ بیٹے نصیر احمد وانی کو بھارتی فوج کی راشٹریہ رائفلز کے اہلکار گھر سے اٹھا کر لے گئے۔
دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن نصیر وانی کا کچھ پتہ نہیں۔ وہ ان کشمیری نوجوانوں میں شامل ہیں جنہیں مقامی لوگوں کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز نے گھروں سے تحویل میں لیا۔ بعد میں اہلِ خانہ فوجی کیمپ، جیل، سرکاری دفاتر اور درگاہوں کے چکر لگاتے رہے لیکن کوئی سراغ ملا نہ وہ گھروں کو لوٹے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع شوپیاں کے گاؤں دوم پورہ کے محمد حسین وانی نے اپنے گھر پر رات گئے فوجیوں کے چھاپے کی تفصیل بتائی۔’انہوں نے دروازہ پیٹا اور ہمیں اٹھنے کو کہا۔ میں اٹھا اور دروازہ کھولا۔ انہوں نے نصیر احمد کا پوچھا۔ میں نے کہا کہ وہ یہیں پر ہے۔ وہ اندر گھس آئے اور ہر جگہ کی تلاشی لی۔ پھر وہ اس کے کمرے میں گئے۔ وہ اسے لے گئے اور ساتھ کچھ کپڑے بھی لے گئے۔ اس کے بلے پڑے ہوئے تھے۔ وہ بھی ساتھ لے گئے۔‘
والد کے بقول ان کا بیٹا زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتا تھا اور کرکٹ کھیلتا تھا۔’اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں تھی۔ کبھی پتھراؤ میں شریک نہیں ہوا۔‘
نصیر وانی کی بہن پرنسے بھی چھاپےکی رات کے صدمے سے نہیں نکلیں۔ ان کے مطابق بھارتی فوجی سب گھر والوں کو کچن میں بند کرکے ان کے بھائی کو ساتھ لے گئے، مگر جانے سے پہلے تلاشی کے دوران بھارتی فوج کے میجر نے تعاون نہ کرنے پر برہنہ کر کے گھر سے باہر نکال دینے کی دھمکی بھی دی۔
پرنسے نے بتایا: ’انہوں نے ہماری بھی تلاشی لی۔ میجر نے پوچھا کہ تم نصیر کی بہن ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں میں اس کی بہن ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کہ اس کا فون تمہارے پاس ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں میرے پاس نہیں ہے۔ کہنے لگا کہ وہ اپنا فون تمہارے پاس رکھواتا ہے۔ اگر تم نے فون نہ دیا تو ہم تمہارے کپڑے اتار پھاڑیں گے۔ تمہیں برہنہ باہر رکھیں گے۔‘
چھ ماہ قبل پانچ اگست 2019 کو نریندر مودی کی حکومت نے آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ کشمیری نوجوانوں کو احتجاج سے باز رکھنے کے پیش نظر بھارتی سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر بلا امتیاز گرفتاریاں کیں۔ پانچ اگست کو باضابطہ کرفیو نافذ کر کے آمد و رفت محدود کر دی گئی۔ رابطہ کاری کے نظام معطل کر کے خطے کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن حالات معمول پر نہیں آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستمبر 2019 میں بھارتی سول سوسائٹی اور صف اول کی صحافیوں پر مشتمل پانچ خواتین کے گروہ کو سری نگر، شوپیاں، پلوامہ اور بانڈی پورہ کے علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ چار روزہ دورے کے بعد ان خواتین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اگست سے ستمبر تک 13 ہزار نوجوانوں کوحراست میں لیا گیا۔ زیادہ تر کو ان کے گھروں سے اٹھایا گیا اور تحویل میں لییےجانے والوں میں نابالغ لڑکے بھی شامل تھے۔
بھارتی خواتین کے گروہ نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ انہوں نے سری نگر کی سینٹرل جیل کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں دیکھیں جو جیل کے باہر لگی فہرستوں میں اپنے پیاروں کے نام ڈھونڈنے کے لیے جمع تھے۔ اس دورے اور رپورٹ کے بعد بھی چھاپوں اور گرفتاریوں کی خبریں لگاتار آتی رہیں۔ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیمیں زیر حراست کشمیری نوجوانوں کی تعداد کے اندازے ہزاروں میں بتاتی ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جن کے گھروں سے نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور اس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ شوپیاں کے نصیر وانی انہی میں سے ایک ہیں جن کا بظاہر کسی جیل کی فہرست میں اندراج ہے نہ والدین کو کہیں اور کوئی نام و نشان ملا۔
29 نومبر کی رات کو بیٹے کی گرفتاری کے بعد حسین وانی اگلے دن اس کا پتہ لگانے فوجی کیمپ گئے۔
وہ بتاتے ہیں: ’ انہوں نے کہا کہ ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اسے ایک موٹر سائیکل والے کے حوالے کیا۔ ہم نے پوچھا کہ ہمیں بتائے بغیر کیوں چھوڑا؟ ہم نے موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ مانگی تو انہوں نے تفصیل دینےسے انکار کر دیا۔ کہنے لگے کہ انہیں نہیں پتہ اور کہا کہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔‘
نصیر وانی کی دادی دو ماہ کے دوران خطے کی کئی درگاہوں پر حاضریاں دے کر نذرانے پیش کر چکی ہیں۔ اب بے یار و مددگار محسوس کرتی ہیں اور پوتے کا ذکر چھڑنے پر زار و قطار رونے لگتی ہیں۔
پوتے کی گھر واپسی کے لیے دو بکروں کی خیرات سمیت اپنی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’ ہم نے ہر جگہ دعائیں مانگی ہیں۔ خدا اور پیغمبر اسے واپس لا دے۔ خدا اور حضرت دستگیر میری نیاز مان لیں۔ ہمارا بیٹا واپس گھر آ جائے۔‘
پرنسے التجا کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’ اگر انہوں نے اسے مار ڈالا ہے تو لاش ہمیں واپس کر دیں۔ اگر وہ زندہ ہے تو ہمیں ملنے دیا جائے۔‘