تیس سال پہلے اسی مہینے جینیوا کے قریب ایک لیبارٹری میں کام کرنے والے برطانوی سافٹ ویئر انجنیئر نے سائنسدانوں کے لیے معلومات بانٹنے کا ایک ایسا نظام ایجاد کیا جس نے بالآخر انسانیت کو تبدیل کر دیا۔
ورلڈ وائڈ ویب کو ایجاد کرنے کے تین دہایوں بعد ٹم برنرز لی نے خبردار کیا ہے کہ ان کی ایجاد ’چوروں نے اغوا کرلی ہے‘ جو کہ اس کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔
یورپین ادارہ برائے نیوکلئیر ریسرچ (سرن) لیب میں واقع برنرز لی کا دفتر اس وسیع کمپاؤنڈ میں موجود باقی دفتروں کی طرح ہی دِکھتا ہے۔
دروازے پر لٹکی ایک چھوٹی تختی اور سرن کی پرانی ڈائریکٹری کا ایک صفحہ، جس پر برنرز لی کے نام کے ساتھ مذاق میں ’کچھ دیر کے لیے دفتر سے باہر ہیں‘ لکھا ہے، صرف یہ دوچیزیں ہی اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہاں کبھی تاریخ رقم کی گئی تھی۔
ٹیکنیشن فرانسوا فلوکینگر، جنہوں نے 1994 میں برنرزلی کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جانے کے بعد ویب ٹیم سنبھالی، نے اے ایف پی کو بتایا: ’ٹم بہت ذیادہ کام کرتے تھے۔ ان کے دفتر میں ہمیشہ لائٹس جلتی رہتی تھیں۔‘
برنرزلی سرن کی اندرونی ڈائریکٹری کے لیے ذمہ دار تھے لیکن وہ ایسے طریقوں کی تلاش میں دلچسپی رکھتے تھے جن سے سرن کے ساتھ تعاون کرنے والے ہزاروں سائنسدانوں کے لیے اپنا کام بانٹنا آسان ہوجائے۔
ان کے ایک ’ڈی سینٹرلائزڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم‘ ہونے کے خواب نے جلد ہی ورلڈ وائڈ ویب کوجنم دیا۔
انٹرنیٹ یا کمپیوٹروں کو جوڑنے والے نیٹ ورکوں کی ابتدائی شکلیں پہلے بھی موجود تھیں مگر وہ ورلڈ وائڈ ویب تھا جس نے ویب صفحات کو براؤزر کے زریعے جمع کرنے اور رسائی حاصل کرنے کو ممکن بنایا۔
فلوکینگر نے کہا: ’ہمیں بہت جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ تاریخ بنائی جارہی ہے۔‘
1990 کے آخر میں برنرزلی نے سرن کی پہلے ویب نیویگیٹر سرور کا آغاز کیا۔ 1991 کے آغازمیں سرن کے باہر براؤزر متعارف کیا گیا اور پھر پہلے دوسرے تحقیقاتی اداروں میں اور پھر عام عوام کے استعمال کے لیے براؤزر متعارف کروایا گیا۔
فلوکینگر، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ویب، اینٹرنیٹ پروٹوکال اور گوگل کے سرچ ایلگورتھم کے ساتھ، بیسویں صدی کی تین بڑی ایجادات میں شامل ہیں جن کی بنیاد پر آج کی ڈیجیٹل سوسئٹی بنی۔ لیکن انہوں نے ویب پر بڑھتی ہوئی ’آن لائن بلی ئینگ، جعلی خبروں اور ہیجان‘ اور آن لائن پرائویسی کو لاحق خطرات پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا: ’انسان کو آخر کار خود کو پوچھنا پڑتا ہے کہ کہیں ہم نے ایک بے قابو جن تو نہیں بنا دیا۔‘
برنرزلی نے اب ’سیو دا ویب‘ (ویب کو بچاؤ) مہم لانچ کی ہے۔
گزشتہ نومبر لیسبون میں ہونے والی ’ویب سمٹ‘ میں، انہوں نے تمام لوگوں کے لیے انٹرنیٹ رسائی اور پرائیویسی کے بنیادی حقوق کو دیہان میں رکھنے والے ایک نئے ’ویب کانٹریکٹ‘ کی بات کی تھی۔
دسمبر میں نیو یارک ٹائمز کے لیے کالم میں ڈارک ویب، سائبر کرائم، جھوٹی خبروں اور ذاتی ڈیٹا چوری کی مثالیں دے کر برنرزلی نے لکھا: ’ویب کو چوروں اور ٹرولز نے یرغمال بنا رکھا ہے جو دنیا بھر میں لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں۔‘
’فادرآف دا ویب‘ کےلقب سے جاننے جائے والے برنرزلی نے جنوری میں ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم میں جمع عالمی اشرافیہ کو آن لائن مباحثوں کی ’پولرائزیشن‘ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے پر زور دیا۔
انہوں نے ایسے آن لائن پلیٹ فارمز کی مانگ کی جو لوگوں کو خود سے مختلف تاثرات اور نظریات رکھنے والوں سے بات کرنے کا موقع دیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرس نے بھی ڈیوس میں ویب کی بدلتی شکل پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے ’ڈیپ ویب اورسائبر سیکورٹی کے تمام مسائل‘ کے اثرات کے بارے میں خبردار کیا اور اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر قابو پانے کے لیے’سافٹ میکانزم‘ تخلیق کرنے کی بات کی۔
1989 میں بڑھتی ہوئی ویب کی اہمیت کا اندازہ کوئی نہی لگا سکتا تھا۔ سرن نے بھی ویب کے ابتدائی دنوں کی صرف چند ہی یادگاریں سنبھال کر رکھی ہیں جن میں برنرز لی کا اپنی دریافت کے بارے میں پہلا میمو اور انکا کمپیوٹرسٹیشن اور کی بورڈ شامل ہیں۔
لیکن جہاں سرن نے اس تاریخی ایجاد کی زیادہ یادگاریں نہی رکھی، وہیں ادارے نے کوشش جاری رکھی کہ ویب غلط ہاتھوں میں نہ پڑ جائے۔
1993 میں تنظیم نے اعلان کیا کہ وہ ویب سافٹ ویئر کو پبلک ڈومین میں ڈال رہا ہے، جس سے کسی فرد یا کاروبار کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اسے اپنے طور پر ڈیویلپ کر سکیں۔
لیکن قسمت اور فلوکینگر کی مدد سے ادارہ ممکنہ مسلے سے بچ گیا۔
سرن کی قانونی ٹیم سے بات کرنے کے بعد 1994 میں فلوکینگرنے ویب کا اوپن سورس ورژن لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ایک اہم قدم ثابت ہوا جس سے سرن کے اس ایجاد کے دانشورانہ ملکیت کے حقوق برقرار رہے جبکہ ویب کو استعمال کرنے اور اس میں ترمیم کرنے کے لئے کسی کو بھی رسائی حاصل رہی۔
1995 میں دانشورانہ ملکیت کے حقوق ایم آی ٹی میں برنرز لی کی ایک قائم کردہ کنسورشیم کو منتقل کردیئے گئے۔
فلوکینگر نے کہا: ’ہم خوش قسمت ہیں کہ ان اٹھارہ مہینوں میں کسی نے ویب پر قبضہ نہیں کیا نہیں تو آج کوئی ویب نہیں ہوتی۔‘