بھارت میں انتخابات سے پہلے پاکستان میں مبینہ فوجی حملے پر اٹھنے والے سنگین سوالات کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی حمایت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بھارت میں مسلح افواج سے جواب طلبی مشکل کام ہے باالخصوص جب معاملہ پاکستان سے تنازعے کا ہو۔ تاہم حزب اختلاف مودی سرکار سے اس دعوے کا ثبوت مانگ رہی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے اندر 26 فروری کو مبینہ حملے میں سینکڑوں ’دہشت گردوں‘ ہلاک ہوئے۔
بھارتی حکومت نے ثبوت کے مطالبے مسترد کر دیے ہیں اور مودی نے ان مطالبوں پر حزب اختلاف کو آڑھے ہاتھوں لے رہےہیں۔
انہوں نے اتوار کو ایک انتخابی جلسےسے خطاب میں کہا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کانگریس اور دوسری جماعتیں دشمن کو فائدہ پہنچانے والے بیانات کیوں دے رہی ہیں۔
پولنگ ایجنسی سی۔ ووٹر کے بانی یشونت دیشمکھ نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اسی طرح قومی سلامتی کے معاملے پر اپنی الیکشن مہم چلاتی رہیں تو انہیں خدشہ ہے کہ اس سے مودی کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔
سی ۔ ووٹر نے پاکستان کے اندر مبینہ بھارتی حملے کے بعد کوئی سروے نہیں کیا لیکن اندازوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیشمکھ کہتے ہیں کہ مودی کی ریٹنگ اتنی اوپر چلی گئی ہے جتنا 2017 کے وسط میں بھی نہیں تھی۔
پاکستان سے کشیدگی سے پہلے ہونے والے زیادہ تر رائے عامہ کے جائزوں میں پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ سست روی کی شکار معیشت، نوٹ بندی کا تنازع، دیہات میں معمولی آمدنی، ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے مودی کی کٹربھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔
تاہم، اب سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کی حمایت بڑھ رہی ہے کیونکہ بی جے پی کو دوسری جماعتوں کے برعکس قومی سلامتی جیسے معاملات پر زیادہ حمایت حاصل ہے۔
نئی دہلی میں واقع تھنک ٹینک ’سینٹر فار پالیسی ریسرچ‘ سے وابستہ راہل ورما کہتے ہیں: ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارت نے کیا کیا یا پاکستان کیا کر رہا ہے۔ الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ میڈیا، بی جے پی اور خود مودی کیسا ماحول بناتے ہیں۔ اگر وہ ڈر کا ماحول بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں لوگوں کو محسوس ہو کہ موجودہ بحران میں ملک کو چلانے کے لیے ایک مضبوط رہنما کی ضرورت ہے تو یقینا مودی کو فائدہ پہنچے گا۔‘
رائے عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جذباتی فضا برقرا رہے اور ایسے میں قومی سلامتی کے معاملے پر حزبِ اختلاف سوالات اٹھا کر غلطی کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق، حزبِ اختلاف کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ دوبارہ بی جے پی کی زراعت کے شعبے خراب کارکردگی اور نئی ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی پر مرکوز کریں۔
گذشتہ سال انہیں مسائل کی وجہ سے کانگریس تین ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار سے نکالنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔
کانگریس کے ترجمان سنجے جھا کہتے ہیں کہ بی جے پی پاکستان سے کشیدگی کا سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے جو انتہائی افسوس ناک اور غیر اخلاقی ہے۔
ماضی میں بی جے پی کے ساتھ مل کر جموں اور کشمیر میں حکومت کرنے والی محبوبہ مفتی بھی اپوزیشن پر زور دے رہی ہیں کہ وہ مودی کو فوجی کشیدگی کا فائدہ نہ اٹھانے دیں۔