اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی درخواست پر پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے خلاف غداری اور دہشت گردی کا مقدمہ خارج کر دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو کیس کی سماعت کے دوران امید ظاہر کی حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگائے گی۔
’ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، جو کچھ آج بھارت میں ہو رہا ہے وہ یہاں نہیں ہونا چاہیے، 25 افراد کے احتجاج سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
صحافی بشارت راجہ کے مطابق آج ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ عوامی ورکرز پارٹی اور پی ٹی ایم کے گرفتار کارکنوں پر قائم مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس پرعدالت نے تمام متعلقہ آئینی درخواستیں نمٹا دیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد نے حکم دیا کہ مقامی انتظامیہ کے بیان کے بعد تمام درخواستیں غیر موثر ہوگئیں، عدالت امید کرتی ہے کہ اب حکومت آزادی اظہار رائے کے بنیادی حقوق کو مدنظر رکھے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا حکومت نے یہ کیس واپس لے کر اچھا اقدام کیا اس سے معاشرے میں مثبت پیغام جائے گا، اکیڈمک معاملات کا فیصلہ ہائی کورٹ نہیں کرسکتی، پی ٹی آئی نے بھی 2014 میں دفعہ 144 کے خلاف پٹیشنز دائر کی تھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی نے آج دلائل دیے کہ ریاست کے خلاف جو بات کرے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست اور عدلیہ اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے نعرے بازی یا بات کرنے سے اس کی بنیادیں ہل جاہیں، نفرت سے بھرپور جو تقاریر کی جاتی ہیں ان کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا ہے۔
گذشتہ سماعت پر عدالت نے چیف کمشنر، آئی جی اور مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ چانڈیو کو طلب کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اے ڈبلیو پی کے گرفتار کارکنان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر آپ کوروکا جائے تو آپ دوبارہ یہاں آسکتے ہیں، آپ تو پرامن مظاہرین ہیں، 25 افراد کے احتجاج سے کسی کو تو کچھ نہیں ہوتا۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گرفتار کارکنان ہمارے پاس آئیں اور ہمیں بتائیں کہ وکلا کی فیس پر ان کے کتنے اخراجات ہوئے حکومت اس کا ازالہ کرے گی۔