جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نےاپنے ریلوے کا نظام سٹینڈرڈ گیج پر منتقل کر لیا ہے وہیں پاکستان ریلوے، جو انگریز دور سے ہی پرانے ڈیزائن کے ٹریک اور نظام کے تحت ہی چلایا جا رہا ہے، اب سی پیک منصوبے کے تحت بھی اسی ڈیڑھ سو سالہ پرانے براڈ گیج ٹریک کو ہی نیا بنا کر استعمال کرے گا۔
محکمہ ریلوے کی جانب سے پلاننگ کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں ابتدائی تخمینے کے مطابق ریلوے کی مین لائن ون کی اپ گریڈیشن پر 9.248 ارب امریکی ڈالر خرچ ہوں گے ،جس میں چین کے7.861 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے 1.387 ارب ڈالر خرچ ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
پاکستان ریلوے کی رپورٹ میں چین سے ملنے والے قرض کو دو فیصد سے کم شرح سود پر لینے کی سفارش کی گئی ہے، اور رائے دی گئی ہے کہ منصوبہ نو سال میں مکمل ہونے کے بعد اس قرض کو 20 سال کے دوران قسطوں میں ادا کیا جائے۔
پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے ابھی تک چین سے اس منصوبے پر عملی کام کے آغاز اور قرض سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے یہ ایک سال سے تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر پلاننگ کمیشن نے ریلوے کی مجوزہ رپورٹ پر پی سی ون منظور کرنے کی ڈیڈ لائن 15 اپریل تک دی ہے۔
ٹرین کو جدید ٹریک پر چڑھانا مشکل کیوں؟
براڈ گیج (پٹری) کی چوڑائی پانچ فٹ چھ انچ ہونے کے باعث ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے جبکہ سٹینڈرڈ گیج پٹری کی چوڑائی چار فٹ ساڑھے انچ ہوتی ہے جس پر ٹرین 250 سے 350 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریلوے نے مالی بحران کے باعث گذشتہ دور حکومت میں ہی چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت کراچی سے پشاور تک ٹریک کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ادارے کی جانب سے پلاننگ کمیشن میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ریلوے کا پوارانظام براڈ گیج ٹریک پر مشتمل ہے جو 7386 کلومیٹر ہے۔ اگر کراچی سے پشاور تک (مین لائن ون) کو سٹینڈرڈ گیج پر منتقل کیا گیا تو ٹرینوں کی رفتار تو عالمی سطح کے ریلویز کے مطابق ہو جائے گی لیکن باقی سب ٹریک اور گاڑیاں ناکارہ ہو جائیں گے جبکہ لنک لائنز پر گاڑیاں نہیں چلائی جا سکیں گی۔ اسی طرح براڈ گیج کی اپ گریڈیشن پر 50 لاکھ ڈالر فی کلو میٹر خرچ ہو گا جبکہ سٹینڈرڈ گیج پر تین کروڑ ڈالر فی کلو میٹر خرچ آئے گا اور پاکستان ریلوے یہ مالی خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔
رپورٹ کے مطابق سٹینڈرڈ گیج پر منتقل ہونے کے لیے علیحدہ ٹریک بنایا جا سکتا ہے جسے شہروں سے لنک کرنا پڑے گا اور وہ نظام ہی الگ ہو گا تو چلے گا۔ پاکستانی پلاننگ کمیشن نے براڈ گیج کو ہی اپ گریڈ کرنے سے اتفاق کیا ہے، جبکہ سگنل سسٹم اور کمیونیکیشن سسٹم کو بھی جدید بنایا جائے گا۔
ایم ایل ون منصوبہ سی پیک کے تحت کب شروع ہو گا؟
ریلوے کی پلاننگ کمیشن کو بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلہ میں عملی کام کا آغاز رواں سال مارچ میں شروع ہونا تھا لیکن اب اگلے سال شروع ہو گا۔
اس معاملے پر وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید سے موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون کا جواب نہیں دیا۔ تاہم ریلوے کے ایم ایل ون سی پیک منصوبہ کے ڈائریکٹربشارت وحید نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے تحت ایم ایل ون منصوبہ شروع کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں، ہم نے پی سی ون تیار کر کے پلاننگ کمیشن کو بھجوا دیا تھا لیکن وہاں سے منظوری نہیں ہوئی جس کے باعث ابتدائی کام کا آغاز نہیں ہو سکا۔
ان سے پوچھا گیا کہ چین سے معاملات کہاں تک طے پائے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 27 جولائی کو ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جسے چینی حکام سے دوطرفہ معاہدوں کا ٹاسک دیا گیا، اس کمیٹی کی اپنی تین میٹنگز ہو چکی ہیں۔
ان کے مطابق اس سال کے آغاز پر چین سے بات شروع ہونا تھی لیکن وہاں کرونا وائرس کا معاملہ سامنے آنے پر تاخیر ہو گئی اور اب کوئی ٹائم نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی سی ون کی پلاننگ کمیشن سے منظوری کے بعد اور چینی حکام سے معاہدے طے ہونے پر ہی کام شروع ہو سکے گا، لہٰذا جتنی جلدی معاہدے ہوں گے اور فنانس منظور ہو گا اتنی جلدی کام کا آغاز ہو سکے گا۔
واضع رہے کہ وزیر ریلوے نے سپریم کورٹ میں ریلوے کے آڈٹ سے متعلق زیر سماعت کیس کے دوران بیان دیا تھا کہ ایم ایل ون منصوبہ سی پیک کے تحت شروع ہونے میں پلاننگ کمیشن کی وجہ سے تاخیر ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پی سی ون کی منظوری نہیں دے رہے جس پر عدالت نے منصوبہ بندی کمیشن کے وفاقی وزیر اسد عمر کو طلب کیا تھا اور انہیں 15 اپریل تک ریلوے مجوزہ رپورٹ کا جائزہ لے کر پی سی ون منظور کرنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔