گیم سیزن تو شروع ہو چکا ہے۔ افتتاحی تقریب گذشتہ سال نومبر میں ہی کر لی گئی تھی جو خاصی مایوس کن رہی۔ شور شرابہ تو بہت تھا لیکن پرفارمنس ماٹھی رہی۔
ہوسٹ ویسے تو کافی منجھا ہوا تھا لیکن شائقین کو انگیج رکھنے اور داد سمیٹنے میں ناکام رہا۔ شریک ہوسٹ بھی سٹیج پر آئے تو مگر ہوٹنگ ہی وصول کر پائے۔ یار لوگوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب مذاق بھی بنایا۔
افتتاحی تقریب کے آرگنائزرز بھی رگڑے گئے۔ بہرحال اب میچز کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے۔ مختلف ٹییموں کے کپتان اپنی اپنی فیلڈ سیٹ کرنے میں لگے ہیں۔
ڈی آئی خان بمقابلہ اسلام آباد کپتان سے کھیل کا نیا آغاز ہو گا۔ ان کے درمیان کا میچ پہلے بھی کئی بار ڈرا ہو چکا ہے اسی لیے نہ تماشائیوں کا کوئی خاص جوش و خروش ہے اور نہ ہی بکیز کو کوئی انہونا لگاؤ۔
لاہور کا مقابلہ ایک طرف اسلام آباد کپتان سے ہے وہیں جنوبی پنجاب کے سلطان سے بھی۔ لیکن گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ لاہور ٹیم کا تجربہ کار کپتان انجری کے سبب باہر بیٹھا ہے۔
نائب کپتان کارکردگی کا مظاہرہ کر نہیں پا رہا۔ ایسے میں ایک طرف جہاں لاہور کے نئے کپتان کی تلاش جاری ہے، وہیں بیٹنگ لائن اپ بھی تشکیل دیا جا رہا ہے۔
ایک عرصے تک لاہور ٹیم تماشائیوں اور بکیز کی یکساں فیورٹ رہی ہے لیکن ہمیشہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر غلط بال پر چھکا مارنے کی کوشش میں حریف کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو کر امپائر کی انگلی کا نشانہ بنی ہے۔
لاہور کو آپ شاہد آفریدی کا سیاسی ورژن بھی کہہ سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے سلطان کی ٹیم البتہ نووارد اور لاہور کی منجھی ہوئی ٹیم کے سامنے پریشر میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خدشہ ہے کہ میچ پڑا تو وکٹیں کہیں دھڑا دھڑ گرنا نہ شروع کر دیں۔ اسلام آباد کپتان منجھا ہوا بھی ہے اور سخت جان بھی۔ آسانی سے ہار ماننے والا نہیں۔
کہتا ہے نہ تو ناکامی سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی میدان آسانی سے چھوڑوں گا۔ کراچی کی دو ٹیمیں میدان میں ہیں۔ کراچی ون کا اصلی کنگ کون ہے؟ یہ معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
کراچی ون کے کپتان اور شریک کپتان کی کھیل کی سٹریٹجی بیک وقت گھمبیر بھی اور کنفیوژڈ بھی۔ میچ شروع ہونے سے پہلے جارحانہ کھیل کی باتیں اور میدان میں اتریں تو ٹک ٹک۔
بیک وقت اس ٹیم کا نہ صرف مخالف ٹیم بلکہ امپائر سے بھی میچ پڑا ہوتا ہے۔ کبھی نرم کبھی گرم۔ کبھی جارحانہ کبھی مفاہمانہ۔ کبھی نروس نائنٹیز کا شکار، کبھی سلو رن ریٹ کی مار۔
اب ٹیم کے کپتان کہتے ہیں کہ اس ٹورنامنٹ کے لیے نئے جذبے، جوش اور نئی سٹریٹجی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور دفاعی چیمپیئن اسلام آباد کپتان کو ہرا کر ہی دم لیں گے۔
کراچی ٹو کی حیثیت بھی ٹیم کی مانند ہے۔ گذشتہ اننگز میں کراچی ون کی بی ٹیم تھی۔ اب اسلام آباد کپتان کی ہے۔ ٹورنامنٹ کے بارہویں کھلاڑی کے طور پر کام آتی ہے۔
دیگر ٹیمیں پشاور، کوئٹہ اور گجرات کی بھی ہیں۔ گجرات کی ٹیم البتہ ٹورنامنٹ کا ڈارک ہارس کہلائی جا سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کھیل کے اختتام پر رنر اپ ٹرافی کی حقدار بھی ٹھہرائی جا سکتی ہے۔
خبر گرم ہے کہ لاہور ٹیم کی کپتانی اس کھلاڑی کے سپرد کی جا سکتی ہے جو ماضی قریب میں بھی اس ٹیم کے کپتانِ اول کے آؤٹ ہو جانے کے بعد متبادل کے طور پر فرائض سر انجام دیتا رہا۔
دھیمے لہجے کا سلجھا ہوا کھلاڑی ہے جو کریز پر نفاست سے ٹک کر کھیلنے کا عادی ہے۔ گیند بازی کی لائن لینتھ سے بھی واقف ہے اور امپائر کی کڑی نگاہوں میں بھی نہیں کھٹکتا۔
تماشائی بھی اس کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتے ہیں، بکیز بھی اعتمار رکھتے ہیں۔ لگتا تو بظاہر یہی ہے کہ اسلام آباد کا کپتان بدلتی صورتحال کو بھانپ رہا ہے اور رفتہ رفتہ اپنی گیم سٹریٹجی میں تبدیلی لا رہا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ البتہ اسلام آباد کپتان کی ٹیم کا ہے، جس کو بھی وہ بیٹنگ کے لیے سامنے لاتا ہے وہی آؤٹ ہوئے چلے جا رہا ہے۔ چند بیٹسمین البتہ اسلام آباد کپتان کے ٹک کر کھیلنے والے ہیں لیکن زیادہ سکور کرنے والی استعداد نہیں رکھتے۔
ایسے میں سارا بوجھ بے چارے کپتان کے کندھوں پر ہے۔ پھر ادھر ادھر سے خبریں بھی مل رہی ہیں کہ ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے لاہور کی ٹیم میچ فکسنگ کی کوششیں بھی کر رہی ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق لاہور ٹیم ان کوششوں میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ دفاعی چیمپیئن اسلام آباد کپتان کے لیے یہ بھی انتہائی پریشان کن ہے اور اس کے پاس اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے اور گیم کو مضبوط رکھنے کے آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد کپتان کی حالیہ پرفارمنس بھی متاثر کن نہیں رہی۔ غیر ملکی گراؤنڈ پر پے در پے شکستوں کا سامنا ہے۔ کراؤڈ کا رجحان تاحال اسلام آباد کپتان کی ٹیم کی طرح ملا جلا ہے۔
پرفارمنس سے امید تو وابستہ ہے لیکن سکور بورڈ پر گھٹتے نمبرز دیکھ کر دل بھی ڈوبا جاتا ہے۔ تاحال ہلکی ہلکی موہوم امید باقی ہے کہ شاید کوئی ایسی چوکوں چھکوں کی برسات ہو کہ تماشائی و شائقین دل کھول کر داد دے سکیں اور تالیاں پیٹ پیٹ کر کپتان کا حوصلہ بڑھا دیں۔
کریز کے آخری سرے پر کھڑا امپائر بھی لگتا ہے مسلسل گرتے سکور اور ٹک ٹک کھیلتے ٹیم پلیئرز کی کارکردگی پر جمائیاں لینے لگا ہے اور بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا ہے۔
گھڑی کی سوئیاں جوں جوں آگے کی طرف سرک رہی ہیں محسوس ہو رہا ہے کہ وقت الٹے قدم لوٹ رہا ہے۔ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے لیے کھیل کے اصول و ضوابط میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔
کچھ نئے کھلاڑی سامنے لائے جا سکتے ہیں، کچھ پرانوں کو تازہ دم کیا جا سکتا ہے۔ ٹیموں کا لائن اپ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کو باہر بھیجا جا سکتا کچھ کو اندر لایا جا سکتا ہے۔
کچھ آل راؤنڈرز متعارف کروائے جا سکتے ہیں تاکہ میدان کی رونقیں بحال رہیں اور شائقین بھی خوش باش ہوں۔ بس جب سیٹی بجے گی، جب سٹیج سجے گا، جب تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی تب کھیل جمے گا ۔۔۔ گیم سیزن تو شروع ہو چکا ۔۔۔ تیار ہو ۔۔۔ !؟