پاکستان کے لیے کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ پاکستانی اس کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ کرکٹ سٹیڈیم میں داخل ہونے کے لیے پاکستانیوں نے طویل جدوجہد کی اور دہشت گردی کو شکست دے کر کھیل کے میدان دوبارہ آباد کیے ہیں۔
2009 تک کرکٹ اور خاص طور پر لیگ کرکٹ پر بھارت کی اجارہ داری برقرار تھی۔ بھارت آئی پی ایل کے ذریعے نہ صرف اپنی معیشت میں بہترین حصہ ڈال رہا تھا بلکہ بہترین ٹیلنٹ سے بھی استفادہ حاصل کر رہا تھا۔
پاکستان کے عزم اور کرکٹ کے جنون نے پی ایس ایل کی بنیاد رکھی تو اس کی کامیابی دنیا نے دیکھی۔ پہلے سیزن کے لیے قطر کو میزبان ٹھہرایا گیا، مگر پھر مارکیٹ کے تجزیے اور امارات کرکٹ بورڈ سے معاملات طے ہونے کے بعد عرب امارات ہی پی ایس ایل کا ہوم وینیو بن گیا۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سیزن ون کا منافع صرف اڑھائی ملین ڈالرز تھا، لیکن پھر بھی دیکھا جائے تو ایک ایسی پاکستانی لیگ جس کا ایک میچ بھی پاکستان میں نہ ہوا، جس میں سب سے بڑی کرکٹ مارکیٹ بھارت کا ایک بھی کھلاڑی شریک نہ ہوا اور شیڈول بھی بمشکل دو ہفتوں پہ محیط تھا، اس کی آمدن اگر 26 لاکھ ڈالرز ہو تو اور کیا چاہیے۔ یہ خسارہ نہیں، منافع ہی تھا۔
دوسرا سیزن پہلے سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز رہا۔ میچ بھی بڑھ گئے، برانڈ بھی قدرے مستحکم ہو گیا اور پھر لاہور کے فائنل کی گونج تو پوری دنیا میں سنائی دی۔ دوسرے سیزن کا ریونیو 109 ملین روپے رہا، جو قریباً 10 لاکھ ڈالرز بنتے ہیں۔
پاکستان میں لیگ کرکٹ کے آغاز کے ساتھ ہی مقامی انڈسٹری بھی مضبوط تر ہو رہی ہے۔ پی ایس ایل کے ابتدائی سیزنز کے میچ ملک سے باہر ہوئے جس کا 100 فیصد معاشی فائدہ پاکستان کو حاصل نہ ہو سکا لیکن اس بار تمام میچز پاکستان میں رکھے گئے ہیں جو کہ شائقین کے لیے بہترین موقع ہونے کے ساتھ مقامی انڈسٹری کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
پی ایس ایل کا پانچواں ایڈیشن شروع ہو چکا ہے، ایسے میں ہر طرف کرکٹ کا جنون طاری ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معاشی سرگرمی بھی تیز ہو گئی ہے۔ کھیل کی سیاحت نے پاکستان کی سست روی کی شکار معیشت کا پہیہ تیزی سے گھما دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایونٹ کے دوران پاکستان میں کاروباری سرگرمی بڑھنے سے ملکی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بھی بہتر ہو گا جو یقیناً خوش آئند ہے۔
پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منظور الحق نے کھیل کی سیاحت کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں سالانہ چار ہزار کے قریب کھیل کے بڑے ایونٹس منعقد ہوتے ہیں اور کھیل کے میگا ایونٹس کی میزبانی کے لیے بڑے ممالک لابنگ اور پیشگی پلاننگ کرتے ہیں، کیونکہ ان میگا ایونٹس سے معیشت کو بہترین فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں پاکستان کے لیے پی ایس ایل کا ایونٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پی ایس ایل میں جہاں مقامی کھلاڑی حصہ لیتے ہیں وہیں بہت سے بین الاقوامی کھلاڑی بھی مختلف ٹیموں کا حصہ بنتے ہیں جس سے شائقین کرکٹ مزید پرجوش ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی کھلاڑیوں میں نمایاں نام ڈیرن سیمی کا ہے جو ہمیشہ سے پی ایس ایل کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی پاکستان میں کھیل کے فروغ کے لیے کاوشوں کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی انہیں پاکستان کی اعزازی شہریت دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
اس بات کا اعلان پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا جس میں مزید کہا گیا کہ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی 23 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں ڈیرن سیمی کو یہ ایوارڈ دیں گے۔ اس عمل سے پاکستان نے پوری دنیا کو کھیل سے محبت اور امن کا پیغام دیا ہے۔
مقامی سطح کی بات کریں تو پی ایس ایل سے ایئرلائنز، ٹیکسٹائل، سپورٹس، ایڈورٹائزنگ، ہوٹل اور ریسٹورنٹ انڈسٹری براہ راست فعال کردار ادا کرکے منافع کمائیں گی۔ اس سب کے ساتھ شائقینِ کرکٹ کو اپنے اپنے شہر کے میدانوں میں معیاری اور بہترین کھیل اور تفریح میسر آئے گی اور کھیل کی سیاحت سے حکومت کو براہِ راست اور بالواسطہ معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
اس کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹائٹل کی بولی، اشتہاروں اور براڈ کاسٹنگ رائٹس، ٹکٹوں کی فروخت وغیرہ سے زرمبادلہ حاصل کرے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال پی ایس ایل سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو تین ارب 69 کروڑ کی آمدنی متوقع ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پی ایس ایل نے پاکستان کرکٹ کو بہت کچھ دیا ہے۔ نئے سٹارز پیدا کیے ہیں، چیمپیئنز ٹرافی میں بھی مدد کی ہے، پاکستان کی ہوم کرکٹ کی بحالی میں بھی معاون رہی ہے۔ بحیثیت برانڈ بھی پی ایس ایل خاصی مستحکم نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا تاثر عالمی سطح پر بہتر کیا جو پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔