وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر خوان گوئیدو پچھلے تین مہینوں نے فوج پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر صدر نکولس مدورو کو بے دخل کر دیں۔
گوئیدو نے 30 اپریل کو دارالحکومت کراکس میں ایک فوجی اڈے پر دوبارہ اپنی اپیل دہرائی جس سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ فوج شاید ان کا ساتھ دینے جا رہی ہے۔
فوج نے فی الحال بغاوت میں دلچسپی کے آثار نہیں دکھائے لیکن وینزویلا کی عوام ضرور گوئیدو کی بات سنتے ہوئے سڑکوں پر موجود ہے۔
ایسے میں جب مدورو کی وفادار فوج سڑکوں کو مظاہرین سے خالی کرانے کے لیے آنسو گیس کا سہارا لے رہی ہے ملک کا سیاسی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
گوئیدو چاہتے ہیں کہ وہ عوام کو سڑکوں پر برقرار رکھ کر صدر پر دباؤ بڑھائیں، انہوں نے مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ ملک بھر میں ہڑتال کے لیے تیار رہیں۔
اس بحران نے نا صرف وینزویلا بلکہ دنیا کو بھی اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ عالمی طاقتیں جن میں امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی شامل ہیں وینزویلا میں جاری بحران پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
70، 80 اور 90 کی دہائیوں میں وینزویلا کا شمار لاطینی ملکوں میں سب سے زیادہ مستحکم ملک کے طور پر سے ہوتا تھا۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے وینزویلا کی معاشی حالت بحران کا شکار ہے اور پچھلے چند ماہ سے وینیزویلا کے باسی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
وینزویلا بحران نے نا صرف وینزویلا بلکہ عالمی دنیا کو بھی اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ عالمی طاقتیں جن میں امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی شامل ہیں وہ وینیزویلا میں جاری بحران پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
وینزویلا کے تباہی کے دہانے پر پہنچنے کی مختلف وجوہات ہیں۔
اقتدار کی جنگ
وینزویلا میں اقتدار کی جنگ دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہے۔ نکولس مڈورو اور ہوان گوئیڈو دونوں اپنے آپ کو وینزویلا کا صدر کہتے ہیں۔
سنہ 2013 میں صدر ہوگو شاویز کی موت کے بعد ان کے شاگرد نکولس مڈورو نے صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ اس وقت وہ صرف 1.6 فیصد ووٹوں کی برتری سے فاتح قرار پائے تھے۔
مئی 2018 میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو متعدد جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ وینیزویلا کی قومی اسمبلی، جس کا کنٹرول حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس ہے، نے انتخابات کو ماننے سے انکار کر دیا۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے 35 سالہ رہنما ہوان گوئیڈو نے گذشتہ سال منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مڈورو کو ’قابض‘ کہہ کر اپنے آپ کو قائم مقام صدر قرار دے دیا جس سے نئے بحران نے جنم لیا۔
تباہ شدہ معیشت
2013 میں نکولس مڈورو کے صدر بننے سے وینزویلا میں معاشی عدم استحکام دیکھنے میں آیا۔
وینزویلا میں شدید احتجاج کی بڑی وجہ ادویات، غذا اور بجلی کی شدید قلت ہے۔ مہنگائی نے بھی وینزویلا کی معیشت اور عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2019 میں وینزویلا میں افراط زر ایک کروڑ گنا بڑھنے کا خدشہ ہے۔ وینزویلا میں اس وقت لوگ یومیہ دس امریکی ڈالر سے بھی کم پر گزارا کر رہے ہیں۔
وینزویلا کے باس ملک سے نکل مکانی کر کے ایکواڈور، برازیل اور کولمبیا جا رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق صرف پچھلے سال 30 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر افراد کے پاس بس کا ٹکٹ مہنگائی ہونے کی وجہ سے خریدنے کی قوت نہیں جس کی وجہ سے وہ پیدل ہی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
وینزویلا تیل کے ذخائر سے مالامال ملک ہے مگر آج کل معاشی و سیاسی طور پر شدید بحران کا شکار ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنطیم اوپیک کے مطابق 2017 میں وینیزویلا دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر والا ملک تھا۔ وینیزویلا میں پچھلے 20 سالوں میں تیل کی پیداوار 35 فیصد کم ہو چکی ہے۔
کون کس کے ساتھ؟
مغربی طاقتیں بشمول امریکہ، جرمنی، کینیڈا، برازیل اور کولمبیا مڈورو کے مخالف ہیں اور ہوان گوئیڈو کے حمایتی ہیں جبکہ روس، چین، ترکی اور دیگر ممالک مڈورو کی حمایت کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اپنی ٹویٹ میں ہوان گوئیڈو کو وینیزویلا کا صدر کا مقام دے چکے ہیں۔
نکولس مڈورو نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہوان گوئیڈو کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ وینزویلا میں موجود امریکی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔
برطانیہ کے مرکزی بینک 'بینک آف انگلینڈ' نے وینزویلا حکومت کو غیر قانونی قرار دے کر 1.56 ارب ڈالر کے اثاثے واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور تمام اثاثہ جات منجمد کر دیے ہیں۔ جبکہ امریکہ نے بھی وینیزویلا کی سرکاری تیل کمپنی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
وینزویلا کی افواج ابھی بھی مڈورو کی حامی ہیں جس کی وجہ سے مڈورو ابھی تک اپنے آپ کو طاقت میں رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال اور ہوان گوئیڈو کی واپسی
ہوان گوئیڈو گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کے حکم کے برخلاف خفیہ طریقے سے ملک چھوڑ کر ارجنٹائن، برازیل، ایکواڈور اور پیراگوئے گئے۔ ان دوروں کا مقصد وینیزویلا میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے لاطینی امریکی ریاستوں کی حمایت یقینی بنانا تھا۔
گوئیڈو ان ممالک کا دورہ کرنے کے بعد پانچ مارچ کو ملک واپس پہنچے ہیں اور ان کی واپسی کو مڈورو کے لیے ایک نیا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
فی الحال مڈورو اور گوئیڈو دونوں اپنے آپ کو صدر کہتے ہیں مگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس شدید بحران میں وینیزویلا کی فوج کا کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔
آگے کیا ہو گا؟
یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ گوئیدو اور مدورو دونوں ہی خود کو ملک کا صدر کہلاتے ہیں۔
گوئیدو وینزویلا کے آئین کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق، صدارت کی کرسی خالی ہونے کی صورت میں اختیارات قومی اسمبلی کے لیڈر کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ 2020 میں امریکی انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وینزویلا بحران کو سوشلزم کی ناکامی کے طور پر پیش کر سکتےہیں۔امریکہ نے اقوام متحدہ کے دوسرے رکن ملکوں سے بھی کہا ہے کہ وہ مدورو کے وفد کی اسناد کو منسوخ کر دیں۔
ٹرمپ نے وینزویلا میں فوج مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ وینزویلا کے معاملے پر امریکہ اور مدورو کی پشت پناہی کرنے والے روس کے درمیان تنازعہ جنم بھی لے سکتا ہے۔
مدورو کو وینزویلا کے تاریخی اتحادیوں کیوبا اور بولیویا کی حمایت حاصل ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس شدید بحران میں وینزویلا کی فوج کا کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔