دوحہ امن معاہدے سے وابستہ امیدیں اپنی جگہ لیکن خدشات بھی کم نہیں۔ ایک خدشہ یہ ہے کہ ایک بڑی اور خطرناک جنگ دبے پاؤں ہماری جانب بڑھ رہی ہے جو لڑی بھلے کچھ اور ممالک کے مابین جائے گی لیکن اس کا میدان پاکستان ہوگا اور آخری تجزیے میں وہ ہماری ہی جنگ ہوگی۔
امریکی افواج افغانستان سے نکلیں تو کہاں جائیں گی؟ دم بھر کو ان کا پڑاؤ یقینا واپس اپنا ملک ہوگا لیکن یہ منزل نہیں ہو گی۔ بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ ایشیا پیسیفک میں صف آرائی ہو رہی ہے اور چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو روکنے کے لیے یہاں امریکہ غیرمعمولی طور پر متحرک ہو رہا ہے۔ اس کشمکش کے نتائج سے آگہی کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو سمجھ لیا جائے۔
امریکہ افغانستان سے نکلے گا تو پاکستان پر اس کا انحصار کم ہو جائے گا اور امریکہ کے نزدیک پاکستان کی اہمیت بھی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ طالبان سے معاملہ کرنے کے لیے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی اور اس ضرورت میں پاکستان کے لیے کئی امکانات موجود تھے۔ ضرورت کا خاتمہ پاکستان کے امکانات کو محدود تر کر دے گا۔ پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھ جائے گا اور ایف اے ٹی ایف کا معاملہ مزید پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔ اس دوران اگر افغانستان میں معاملات الجھتے ہیں اور انہیں سلجھانے کی اضافی ذمہ داری پاکستان پر ڈال جاتی ہے یا ان کے الجھنے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے تو بات زیادہ پریشان کن ہو جائے گی۔ حالات کا جبر اسے کھل کر اظہار سے روک رہا ہو تو الگ بات ہے ورنہ قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ پاکستان سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ خطرہ موجود ہے کہ موقع دیکھ کر وہ رد عمل دے گا۔
طالبان اور امریکہ کا معاہدہ تو ہو گیا ہے جو بہت خوش آئند بات ہے لیکن ساتھ ہی سوالات کا ایک دفتر بھی کھلا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جب افغان قیادت مکالمہ کرنے بیٹھے گی تو اس کا انجام کیا ہو گا، آئندہ حکومت کس کی ہو گی اور اقتدار کا تعین ووٹ کی قوت سے ہو گا یا بندوق کی طاقت سے؟ افغان قیادت کی ماضی قریب کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ خون بہائے بغیر کسی عمرانی معاہدے پر اتفاق کر لینا ان کے بس کی بات ہی نہیں۔
سہہ فریقی معاہدہ ہو جاتا تو یہ سوالات ہی پیدا نہ ہوتے لیکن یہاں پیچیدہ صورت حال ہے۔ ابھی تو امن معاہدے کو دو دن نہیں گزرے اور افغان صدر نے طالبان قیدی رہا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ معاہدہ امریکہ نے کیا ہے، افغان حکومت اس کی پابند نہیں ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ افغان صدر نے یہ بیان کیسے دے دیا جب کہ ان کا اپنا اقتدار امریکی سہارے پر کھڑا ہے اور امریکہ کی یہ دھمکی بھی مذاکرات کی میز پر ایک کونے میں رکھی ہے کہ معاہدے پر عمل نہ ہوا تو ایسی قوت کے ساتھ واپس آئیں گے جو اب تک کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔وہ اتنے طاقتور کب سے ہو گئے کہ امریکہ کو چیلنج کرنے لگ گئے؟
اس سوال میں بڑی معنویت ہے کہ افغان صدر نے یہ بیان اپنے طور پر ردعمل کی کسی کیفیت میں دیا ہے یا انہیں کچھ اہم ممالک کی آشیر باد ہے جو اس امن معاہدے کے خلاف ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے خود امریکہ کا ہاتھ ہو جو چاہتا ہو کہ اپنے پیچھے ایک ایسا افغانستان چھوڑ جائے جہاں خانہ جنگی ہو اور پھر حسب ضرورت امریکہ فیصلہ کر لے کہ اس جنگ و جدل کو پاکستان میں دھکیلنا ہے یا اس غیرمعمولی قوت کے ساتھ خود آ جانا ہے جو’اب تک کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔‘
ساؤتھ چائنہ سی میں میدان سج چکا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے اوبامہ انتظامیہ کی نرمی سے چین نے بہت فائدہ اٹھا لیا اب اسے محدود کرنے کا وقت ہے۔ تناؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اور چین براہ راست جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کے بیچ ایسی ہی سرد جنگ جاری ہے جیسے کبھی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان تھی۔ اس جنگ میں امریکہ چاہتا ہے کہ چین کے تجارتی راستے بند اور محدود کر دیے جائیں۔
چین کی اصل قوت اس کی معیشت ہے اور یہ قوت اس وقت رئیل اسٹیٹ کے بوجھ تلے دبتی سی محسوس ہو رہی ہے۔ چینی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ چین کی ایکسپورٹ بڑھے۔ یہ نہ ہو سکا تو چین کی ترقی معکوس کا سفر بھی شروع ہونے کا خطرہ موجود ہے۔امریکہ نے اگر چین کے تجارتی راستوں کو مسدود کر لیا تو چین بہت بڑے معاشی بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آیئے اس بڑی جنگ کے خطرے کی جانب بڑھیں جو دبے پاؤں پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ، جس کا ایک جزو سی پیک ہے، وہ اس سرد جنگ کا ہدف ہو گا۔ یہ چین کا اہم تجارتی راستہ ہے۔ چین کوگوادر تک تجارتی راستہ ملتا ہے تو اس کے لیے امکانات کے جہاں آباد ہو جائیں گے۔
سی پیک چین کو محض پاکستان سے نہیں جوڑے گا یہ اسے ایران سے بھی جوڑے گا اور عرب دنیا تک آسان راستہ فراہم کرے گا۔ پاکستان کو اشاروں کنایوں میں اس سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ واقفان حال ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں۔ کبھی چین کے قرضوں کے مضمرات سے پاکستان کو آگاہ کیا جاتا ہے تو کبھی آئی ایم ایف سے کہا جاتا ہے پاکستان کو قرض دینے میں احتیاط کرے ایسا نہ ہو آئی ایم ایف کا قرض چینی قرض کی ادائیگی میں استعمال ہو جائے۔ تازہ صف بندی بتاتی ہے کہ یہ پراجیکٹ امریکہ کے مفاد میں نہیں۔ وہ اسے روکنے کی پوری کوشش کرے گا۔
اس کوشش میں، یعنی اس سرد جنگ کے آخری حربے کے طور پر خطرہ موجود ہے کہ اول افغانستان میں خانہ جنگی ہو اور پھر اس خانہ جنگی کے شعلوں کو پاکستان تک پھیلا دیا جائے۔ براہ راست تصادم میں الجھے بغیر چین کے تجارتی راستے کو مسدود کر دینے کا یہ آسان ترین آپشن ہے۔ اس صورت میں پاکستان میدان جنگ ہو گا۔ ایسے ہی جیسے سویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کا میدان افغانستان تھا۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے لیے 14 ماہ کا وقت ہے اور ہمارے پاس بھی 14 ماہ ہیں۔ اس عرصے میں ہنگامی بنیادوں پر سی پیک کو جس قدر آگے بڑھا لیا جائے اور حقیقت کا روپ دے لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ایک بڑی جنگ ہماری طرف بڑھ رہی ہے اور وقت کم ہے۔