صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤں میں شہروں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ، شاپینگ مالز، تفریحی مقامات، عوامی پارکس اور محکمہ تعلیم سمیت دو درجن سے زائد سرکاری محکمے 15 دن کے لیے بند کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے بھر میں چلنے والی وائن شاپس یعنی شراب کی دکانیں بھی دو اپریل تک بند کر دی ہیں۔
سندھ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ اینٹی نارکوٹکس ڈائریکٹوریٹ جنرل آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جمعرات سے صوبے بھر میں موجود شراب کی دکانیں بند رہیں گی۔
نوٹیفکیشن میں سندھ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ انٹی نارکوٹکس کے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص اور شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے ریجنل ڈائریکٹوریٹ کے احکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے ڈویژن میں موجود شراب کی دکانوں کو بند کروائیں اور پابندی کا اطلاق یقینی بناتے ہوئے مذکورہ تاریخوں کے دوران شراب کی کھلے عام اور خفیہ خرید و فروخت مکمل طور پر بند رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
سندھ ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ اینٹی نارکوٹکس کے صوبائی وزیر مکیش کمار چاولا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح جب سندھ میں بھی کرونا وائرس کے کیس ظاہر ہونا شروع ہوئے تو سندھ کی صوبائی حکومت نے احتیاط کے طور پر صوبے کے بیوپاری مراکز کو بند کرنے کا اعلان کیا اور کیوں کہ شراب کی فروخت بھی ایک کاروبار ہے، تو ہم نے وائن شاپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
سندھ میں سرکاری لائسنس رکھنے والی شراب کی دکانوں کو سرکاری طور پر ’وائن شاپ‘ کے نام سے پُکارا جاتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دکانوں پر وائن نہیں فروخت کی جاتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شراب کی ایک دکان کے مالک وجے کمار کے مطابق، وائن میں الکوحل کی مقدار کم ہوتی ہے اور وائن کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور پاکستان میں زیادہ مقدار کے الکوحل والی شراب استعمال کی جاتی ہے، اس لیے پاکستان میں وائن نہیں بنائی جاتی۔
دنیا میں 50 سے زائد اسلامی ممالک میں سے پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں سرکاری طور پر شراب بنانے کی اجازت ہے۔ مگر ملک کے مسلمان شہریوں پر شراب رکھنے، بیچنے اور استعمال کرنے پر قانونی پابندی ہے۔
کرمنل لا کے ماہر وکیل شوکت حیات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضیاالحق کے دور میں اگر کسی مسلمان کو شراب نوشی کے بعد پکڑا جاتا تھا تو اسے 30 کوڑے مارے جاتے تھے مگر بعد میں کوڑوں کی سزا ختم کی گئی اور اب اگر کوئی مسلمان شراب نوشی کرتا پکڑا گیا تو قانون کے مطابق تین سال تک سزا ہوسکتی ہے مگر یہ سزا اکثر نہیں دی جاتی۔
جبکہ قانونی طور پر پاکستان میں شراب صرف غیر مسلم پاکستانی شہری یا غیرملکی صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے پر خرید کرسکتے ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں شراب کشید کرنے والے صرف تین کارخانے ہیں، جن میں برطانیہ دور کے دوران 1860 میں قائم ہونی والی مری بروری راولپنڈی، انڈس ڈسٹلری کراچی اور کوئٹہ ڈسٹلری کوئٹہ، بلوچستان میں واقع ہے۔
چاروں صوبوں میں شراب کا سب سے زیادہ استعمال سندھ میں ہوتا ہے۔ مری بروری کی ویب سائٹ کے مطابق سرکاری لائسنس رکھنے والے وائن شاپ یعنی شراب فروخت کرنے والی دکانیں اسلام آباد میں چار اور پورے پنجاب میں آٹھ ہیں، جبکہ سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محکمے کے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں سرکاری لائسنس رکھنے والی 122 وائن شاپ ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں سندھ حکومت نے 85 لائنسس کا اجرا کیا ہے جن میں لائنسس سے چلنے والی دکانوں کی تعداد 64 ہے۔ جبکہ باقی دکانیں صوبے کے دیگر اضلاع کے چھوٹے بڑے شہروں میں واقع ہیں۔
سندھ میں کرونا وائرس کے باعث روزمرہ کے دیگر کاروباری مراکز بند ہونے کے ساتھ شراب کی دکانیں بند ہونے پر کیا بوٹ لیگر اپنا کام جاری رکھیں گے؟
اس سوال پر کراچی کے صدر کی ایک شراب کی دکان پر کام کرنے والے ایک بوٹ لیگر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ماضی میں ہم دکان بند ہونے کی صورت میں شراب خرید کر اپنے گھر پر رکھتے تھے اور جیسے کوئی مانگتا تھا تو انھیں سپلائے کرتے تھے۔ مگر بعد میں پولیس نے چھاپے مارنا شروع کردیے۔ اب ہم سٹاک نہیں کرتے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جیسے ہی شراب کی دکانیں کچھ دنوں کے لیے بند ہونے جاتی ہیں ہمیں ایکسائیز والے بتا دیتے ہیں جس کے بعد ہم اپنے مخصوص گاہکوں سے اتنے دن کے حساب سے آرڈر لے لیتے ہیں اور دکان بند ہونے سے پہلے ہی اپنے مخصوص گاہکوں کو شراب پہنچا دیتے ہیں۔‘